سرینگر: جموں وکشمیر کے موجودہ حالات واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ مرکزی حکومت کے 5 اگست 2019 کے فیصلے سراسر غلط تھے اور خصوصی پوزیشن کے خاتمے کیلئے ملکی عوام کے سامنے جو دلائل دیئے گئے تھے اور جو دعوے کیے گئے تھے وہ سب کے سب سراب ثابت ہوئے۔ان باتوں کا اظہار نیشنل کانفرنس کے معاون جنرل سکریٹری ڈاکٹر شیخ مصطفےٰ کمال نے اپنی رہائش گاہ میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کے حالات مرکزی حکومت کے دعوﺅں اور اعلانات کے عین برعکس ہیں اور حکام کی طرف سے فرضی لیپا پوتی کے باوجود بھی حقائق سامنے آرہے ہیں۔ لداخ سے لیکر لکھن پور تک تینوں خطوں کے عوام مرکزی حکومت کے فیصلوں سے نالان ہیں اور اپنے حقوق کی فوری بحالی چاہتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 5 اگست 2019 کا دن تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے جس سے جمہوریت، قانون اور آئین کا تہہ تیغ کرکے جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن کو جبری طور پر طاقت کے بل بوتے پر چھین لیا گیا۔ حکمران جماعت نے اکثریت کا ناجائزہ فائدہ اُٹھا کر اُن آئینی ضمانتوں کا قتل کرکے جموں وکشمیر کے جمہوری اور آئینی حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا۔
ڈاکٹر کمال نے کہا کہ گزشتہ 4 سالوں سے جموں وکشمیر ایک کھلے قید خانے کی مانند ہے جہاں ہر ایک سرگرمی پر غیر اعلانیہ پابندی ہے۔آج بھی نیشنل کانفرنس کے صدر دفتر نوائے صبح کمپلیکس کو صبح دو گھنٹوں تک سیل رکھا گیا اور اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ آج کے دن یہاں کوئی بھی پروگرام منعقد نہ ہو پائے۔ اگرچہ بعد میں رکاوٹیں ختم کی گئیں تاہم ہر آنے جانے والے کی ویڈیو گرافی کی جارہی تھی۔