پشمینہ صنعت کشمیر کی قدیم دستکاری صنعتوں میں شمار ہوتی ہے۔ ایک وقت میں یہاں کی آبادی کا ایک بڑا حصہ بالواسطہ یا بلاواسطہ طور سے اس پشمینہ صنعت سے وابستہ ہوتا تھا۔ چند دہائی قبل یہ دستکاری صنعت اتنے عروج پر تھی کہ نہ صرف مرد بلکہ خواتین بھی اس سے اپنا روزگار کماتی تھیں۔
لیکن آج کی تاریخ میں خواتین کیا مرد بھی اس صنعت سے کنارہ کشی اختیار کر چکے ہیں۔ پشمینہ کا گڑھ کہلائے جانے والے سرینگر کے پرانے شہر میں بھی اب مٹھی بھر لوگ ہی اس دستکاری صنعت سے وابستہ ہیں۔ اور یہ بچے کھچے افراد بھی تذبذب اور بے چینی کے شکار ہیں، خواہ وہ دستکار ہوں، ڈیولپر ہوں یا پشمینہ برآمد کرنے والے۔ وجہ ہے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مشین سے تیار کردہ اور ہاتھ سے بنائے جا رہے اصل پشمینہ مصنوعات میں فرق سے متعلق تشہیر نہ ہونا۔
کشمیری پشمینہ کی اپنی ایک الگ پہنچان اور شناخت ہے۔ آج کے اس مشینی دور کے باوجود ڈبلیو ٹی او کی جانب سے اصل اور نقل پشمینے کی پہچان کے لئے جی آئی ایم یعنی جغرافیکل انڈیکیشن مارک فراہم کیا جا چکا ہے لیکن محکمہ ہنڈی کرافٹس اور دیگر متعلقہ ایجنسیوں کی عدم توجہ سے اس کی تشہیر صحیح معنوں میں نہیں ہو پا رہی ہے جسے اب یہ پرانی اور اصل پشمینہ صنعت مزید تباہی کے دہانے تک پہنچ گئی ہے۔ سرکاری سطح پر کشمیری دستکاری صنعتوں کو بچانے کے لئے بلند و بانگ دعوے کئے تو جا رہے ہیں لیکن زمینی صورتحال قدرِ مختلف نظر آ رہی ہے۔