جموں و کشمیر کی موجودہ صورتحال کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے 500 سے زائد دانشوروں اور سائنس دانوں نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ 'آرٹیکل 370 کے تحت حاصل خصوصی حیثیت منسوخ کرنے کے بعد سے ڈیڑھ ماہ سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے۔'
بیان پر دستخط کرنے والوں نے کہا کہ 'خصوصی حیثیت منسوخ کرنے کے بعد سے ہی حکومت نے کشمیر میں مواصلاتی نظام پر پابندی عائد کردی ہے اور حزب اختلاف کے رہنماؤں کو حراست میں لیا گیا ہے نیز جگہ جگہ پر سکیورٹی اہلکار تعینات ہیں۔'
انہوں نے مزید کہا کہ 'ریاست میں مواصلاتی نظام اور انٹرنیٹ کے بند ہونے سے تمام لوگ پریشان ہو گئے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ کشمیر کے کچھ حصوں میں لینڈ لائنز کو بحال کردیا گیا ہے لیکن یہ اقدام کشمیری باشندوں کو خاطر خواہ امداد فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ہمارے اپنے اداروں میں ہم طلبا کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ وہ اپنے کنبے کے ساتھ رابطہ نہیں کر پا رہے ہیں۔'
انہوں نے کہا کہ 'پابندیوں کے باعث شہریوں کو طبی سامان خریدنے اور بچوں کو اسکول جانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ کشمیر میں حزب اختلاف کے رہنماؤں کو حراست میں رکھنے اور اس پر پابندی لگانے کے بارے میں حکومت کے اقدامات غیر جمہوری ہیں۔'
انہوں نے کہا کہ 'ان افراد کے بارے میں جو بھی نظریہ ہوسکتا ہے جمہوریت میں ایک بنیادی معمول یہ ہے کہ اقتدار میں پارٹی کو اپنے سیاسی مخالفین کو بند کرنے کا حق نہیں ہے جبکہ ان پر کسی بھی جرم کا الزام تک عائد نہیں کیا گیا ہے۔'