سرینگر: نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے 31 اکتوبر کو یوم افسوس اور ماتم کا دن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دفعہ370 کو کھوکھلا کیا، 35 اے ہٹایا گیا، جموں وکشمیر کے دو حصے ہوئے اور پھر مرکزی زیر انتظام خطے بنائے گئے،کہنے کیلئے تو آج جموں وکشمیر کے کسی کونے میں جشن منانے کا پروگرام رکھا گیا ہے کیونکہ آج یوٹی فاﺅنڈیشن ڈے ہے۔اسی روز جموں وکشمیر کو یونین ٹریٹری میں تبدیل کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ لیکن حقیقت میں آج تو جموں و کشمیر کے عوام کیلئے ماتم اور افسوس کا دن ہے،آج تو ہمارے لئے کالے جھنڈے کا دن ہے ۔یو ٹی میں تبدیل کرکے ہماری ریاست کو ذلیل کرنے کے سوا اور کچھ نہیں کیا گیا۔ان باتوں کا اظہار انہوں نے آج ٹنگڈار میں پارٹی عہدیداروں اور کارکنوں کے یک روزہ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ ”جب تک ہماری عزت، پہچان، شناخت اور وقار نہ ہو اُس وقت تک سب کچھ بے معنی ہے، آج ہماری عزت نہیں ،نہ ہی ہماری پہچان ہے اور نہ ہی مفادات کا تحفظ حاصل ہے۔ ہم سر اُٹھا کر چل نہیں سکتے، سر نیچے کر کے چلنا پڑتا ہے، کیونکہ معلوم نہیں کہ کہاں سے ہماری ریاست پر نیا سیاسی حملہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ جب پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلایا جاتا ہے تو یہاں کے لوگوں کی ٹانگیں کاپنے لگتی ہے کہ پتہ نہیں 5اگست2019کا کچھ باقی مت رہ گیا ہوگا اور کہیں اُسے بھی پورا تو نہیں کیا جارہا ہے۔“
جموں وکشمیر میں حکومتی انتشار اور انتظامی خلفشار پر بات کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ ”کسی سرکاری دفتر میں عام لوگوں کی شنوائی نہیں ہوتی،اکثر و بیشتر افسران تو ہماری زبان سمجھنے سے قاصر ہیں، وہاں وہاں سے افسر لائے گئے ہیں جن کو اگر جموں و کشمیر کا نقشہ دکھایا جائے تو انہیں کرناہ نظر نہیں آئے گا۔اُس وقت کہا گیا تھا کہ یوٹی بنے پر آپ کے تمام مشکلات حل ہوجائیں گے، لیکن 4سال میں کون سے مشکلات کم ہوئے؟ کون سا مطالبہ پورا ہوا؟“
انہوں نے کہا کہ ہمارے گورنر صاحب دعویٰ کرتے ہیں کہ 90 ہزار کروڑ کے سرمایہ کاری کی تجاویز آئیں ہیں،90ہزار کروڑ کوئی معمولی رقم نہیں ہے،اس بات خلاصہ کیا جانا چاہئے کہ سرمایہ کاری کہاں لگ رہی ہیں، اس میں کون کام کررہا ہے؟ ہمارے یہاں تو اپنے ٹھیکے باہر کے لوگوں کو دیئے جارہے ہیں۔ریت ہماری، پتھر ہمارے ، زمین ہماری لیکن فائدہ لینے والے باہر کے لوگ۔ “
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکمران دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے ٹیکس کی کمائی کو بڑھایا لیکن یہ نہیں کہتے کہ جموں و کشمیر میں چپے چپے پر شراب کی دکانیں کھولیں گئیں ہیں۔ آپ لوگوں کو نشے کی طرف لے جاﺅگے تو ٹیکس کی کمائی تو بڑھے گی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اس بات کے اعداد و شمار بھی عوامی سطح پر لائے کہ گذشتہ5سال میں منشیات کے استعمال کا رجحان ہمارے نوجوانوں میں کتنا بڑا ہے، آج صورتحال یہ ہے کہ نشیلی ادویات کی بدولت لاکھوں نوجوانوں کا مستقبل تباہ ہوا ہے اور حکومتی سطح پر کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی آنکھ بند کررہا ہے تاکہ یہ نشیلی دوائیاں کا کاروبار چلے۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ اٹل بہاری واجپائی نے کہا تھا کہ دوست بدلے جاسکتے ہیں لیکن پڑوسی نہیں اور ہمیں اپنے ہمسایہ ممالک کیساتھ تعلقات استوار کرنے ہونگے لیکن جب ہم امن سے رہنے کی بات کرتے ہیں تو ہمیں طعنے دیئے جاتے ہیں۔