Omar Abdullah on Assembly Elections اسمبلی الیکشن کرانے کی اب ہمیں کوئی امید نہیں، ساتھیوں کو گاڑیوں کا تیل ضائع نہ کرنے کا دیا مشورہ، عمر عبداللہ
الیکشن کمیشن آف انڈیا نے پیر کے روز جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کے حوالہ سے ایک بار پھر ’’سیکورٹی صورتحال‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ سیکورٹی صورتحال اور دیگر ریاستوں میں منعقد ہونے والے انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے صحیح وقت پر جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کے انعقاد کے بارے میں اعلان کریں گے۔
اسمبلی الیکشن کرانے کی اب ہمیں کوئی امید نہیں، ساتھیوں کو گاڑیوں کا تیل ضائع نہ کرنے کا دیا مشورہ، عمر عبداللہ
سرینگر:جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلی اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا بی جے پی کے اشارے پر چل رہا ہے جس کے باعث اب ان کو کمیشن سے جموں کشمیر میں اسمبلی انتخابات منعقد کرنے کی کوئی امید نہیں ہے۔عمر عبداللہ نے کہا کہ نیشنل کانفرنس اسمبلی الکیشن منعقد کرانے کے لیے سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوجائے گے، تاکہ الیکشن کمیشن پر دباؤ کیا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ ان کو یہاں اسمبلی الیکشن کی کوئی امید نظر نہیں آرہی ہے اور انہوں نے اس کے لیے اپنے ساتھویں کو مشورہ دیا کہ وہ سیاسی سرگرمیاں کم کرے تاکہ گاڑیوں کا تیل ضائع نہ ہوجائے۔لداخ کے ضلع کرگل میں خود مختار پہاڑی ترقیاتی کونسل میں نیشنل کانفرنس کی کامیابی پر عمر عبداللہ نے آج سرینگر میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات بی جے پی کے 5 اگست 2019 فیصلوں پر ایک ریفرنڈم ہے۔
انہوں نے کہا کہ کرگل انتخابات کے نتائج سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ لداخ کے لوگوں کو جموں کشمیر سے الگ کرنا جنتا جموں کشمیر عوام کو بُرا لگا، اتنی ہی یہ بات کرگل کے لوگوں کو کھٹکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان انتخابات کے نتائج کو مذہبی ترازو سے نہیں دیکھنا چاہئے کیونکہ اس الیکشن میں بودھ ووٹ بی جے پی کو نہیں ملا بلکہ بودھ علاقے سے نیشنل کانفرنس کا ایک کونسلر منتخب ہوا۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ کرگل ہل کونسل الیکشن 5 اگست 2019 کے بارے میں تھا اور کرگل کے لوگوں نے ثابت کیا کہ وہ مرکزی سرکار کے اس فیصلے کے ساتھ نہیں تھے جس میں جموں وکشمیر اور لداخ کو تقسیم کیا گیا اور یو ٹیز بنا دیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ کرگل خود مختار پہاڑی ترقیاتی کونسل میں نیشنل کانفرنس نے 12 سیٹیں جیتی، وہیں کانگرس کو دس سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی، جبکہ بی جے پی کومحض دو سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔
جموں کشمیر میں اسمبلی انتخابات کے انعقاد کے بارے میں عمر عبداللہ نے کہا کہ نیشنل کانفرنس الیکشن کے لیے تیار ہے لیکن مرکزی سرکار اور بی جے پی تیار نہیں ہیں، کیونکہ وہ لوگوں سے ڈر رہے ہیں اور ان کا سامنا نہیں کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آج الیکشن کمیشن آف انڈیا نے یہاں کی عوام کو پھر سے مایوس کیا اور آج کی پریس کانفرنس میں الیکشن کمشنر نے سکیورٹی صورتحال کا ذکر کیا، جبکہ مرکزی سرکار دعوے کر رہی ہے کہ یہاں سکیورٹی صورتحال بہتر ہوئی ہے۔
غور طلب ہے کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا نے آج پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کے تاریخ کا اعلان کیا، جو سات نومبر سے شروع ہورہے ہیں، لیکن جموں کشمیر کے الیکشن پر پوچھے گئے سوال پر کمیشن نے کوئی واضح بات نہیں کہی بلکہ کہا کہ دیگر وجوہات کی وجہ سے جموں کشمیر میں اسمبلی انتخابات منعقد نہیں کرائے جاسکتے ہے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا سے ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ وہ کیوں یہاں الیکشن منعقد نہیں کراتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ الیکشن کمیشن بی جے پی کے اشاروں پر چلتی ہیں۔عمر عبداللہ نے کہا ان کو امید تھی کہ یہاں پنچایت اور بلدیاتی انتخابات منعقد ہونگے، لیکن اب یہاں بی جے پی کوئی بھی الیکشن کرانے کی ہمت نہیں رکھتی اور یہ پارلیمنٹ الیکشن بھی نہیں کرواتے یہاں لیکن اس کا انعقاد ان کے لیے مجبوری ہے۔ انہوں نے کمیشن کو تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جموں کشمیر میں ایک ہی فیکٹر ہے وہ ہے خوف کا فیکٹر۔ لیکن مرکزی سرکار دعوے کررہی ہے کہ یہاں کے حالات پانچ اگست کے بعد بہتر ہوئے ہیں، اگر ہوئے ہیں تو پھر یہاں الیکشن کیوں نہیں کراتے؟
انہوں نے سوالیہ طور پر کہا کہ کیا ہمیں حق نہیں ہے کہ دیگر ریاستوں کی طرح جمہوری حق نہیں ہے۔عمر عبداللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو یہاں الیکشن کرانے کی اجازت نہیں مل رہی ہے۔ لگتا ہے کہ ہمیں الیکشن کے لئے بھی سڑکوں پر آنا پڑے گا۔ "افسوس ہے کہ ہمیں جمہوری حق کے لئے بھی مجبور کیا جارہا ہے۔"