کشمیر کا سب سے پہلا اور قدیم پبلشنگ ہاوز سرینگر (جموں و کشمیر): جموں و کشمیر کی گرمائی دار الحکومت سرینگر کے شہر خاص کا ایک قدیمی بازار مہاراج گنج میں واقع ہے اس بازار میں 'غلام محمد نور محمد تاجران کتب کے نام سے ایک تاریخی کتاب گھر موجود ہے۔ اگرچہ یہ دکان اس وقت ایک معمولی سٹیشنری شاپ کی طرح نظر آتا ہے تاہم اس کی تاریخ بھارت کی تاریخ سے بھی زیادہ تابناک ہے۔
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس کتاب گھر کو سنہ 1890 میں غلام محمد نے قائم کیا تھا اور یہاں نہ صرف کتابیں فروخت کی جاتی تھی بلکہ شائع بھی کی جاتی تھی۔ اس دکان کو کشمیر کا پہلا پبلشنگ ہاؤس ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ اس دکان کے گرد ونواح میں کشمیر کے بادشاہ زین العابدین کی والدہ کا مقبرہ بھی ہے۔
غلام محمد کے پوتے محمد اقبال، جو گزشتہ 45 برس سے اس دکان کو چلا رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ "میرے دادا کتابوں کے کافی شوقین تھے۔ وہ اس وقت کشمیر کے دور دراز دیہاتوں میں جاتے تھے، نسخے جمع کرتے اور بعد میں اُن کو شائع کرتے تھے۔ اس وقت کوئی پبلک ٹرانسپورٹ نہیں تھا، اس لیے کبھی وہ پیدل، کبھی گھوڑے اور کبھی تانگے پر سفر کرتے تھے۔ تب بھارت اور پاکستان کا بٹوارا نہیں ہوا تھا، اس لئے لاہور بھی جاتے تھے اور لکھنؤ بھی اور وہاں سے وہ کتابیں، رسالے لاتے تھے‘‘۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ "اس وقت یہاں نہ ریڈیو تھا، نہ اخبارات اور نہ ہی ٹی وی، اور شرح خواندگی بھی بہت کم تھی۔ اس سب کے چلتے وہ یہاں علم کے نور کو فروغ دینے کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے۔ پہلے میرے دادا پھر میرے والد نور محمد نے کشمیر کے ہر ایک کونے سے ادبی نسخے جمع کیے اور اُن کو ترتیب دے کر کتاب کی شکل دیتے تھے۔ اُن کی محنت کی وجہ سے کشمیری زبان میں 250 کتابیں اس پبلشنگ ہاوس کی جانب سے شائع ہوئی۔ اگر وہ نہیں ہوتے نہ تو کلچرل اکیڈمی ہوتی اور نہ ہی کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ کشمیری ہوتا۔
اس تاریخی پبلشنگ ہاؤس کی جانب سے کشمیری زبان پر کی گئی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ "سنہ 1917 تک میرے دادا نے یہ کام سنبھالا اور اس کے بعد میرے والد، اور اب میں اس کام کو سنبھال رہا ہوں۔ تاریخ کشمیر کا کشمیری ترجمہ، کشمیری زبان میں قرآن شریف اور رامائن بھی سب سے پہلے یہی سے شائع کی گئی۔ سنہ 1947 کے بٹوارے کے بعد میرے والد (نور محمد) نے کشمیری میں کتابیں چھاپنے کے لیے اپنا پریس لال چوک میں قائم کیا۔ یہ کشمیر کا پہلا پریس تھا اور دہلی سے لیا گیا تھا۔ "
مزید پڑھیں:کشمیری زبان و ادب کا سالانہ اجلاس
اقبال کا کہنا ہے کہ "جب 1970 میں میرے والد کا انتقال ہوا، ہم کافی چھوٹے تھے اور اس لیے اُن کے میراث کو سنبھال نہیں سکے، پرنٹنگ پریس بیچنا پڑگیا کیونکہ مالی حالات ویسے نہیں رہے اور آج یہاں ایک سٹیشنری شاپ ہے۔ سرینگر میں اس پبلشنگ ہاؤس کی پانچ شاخیں تھی۔ یہاں تمام مشہور کشمیری شاعر اور ادیب آتے تھے اور ان کی کتابیں بکتی تھیں۔ وہ ایک دوسرے سے ملاقاتیں اور خیالات پر تبادلہ خیال بھی کرتے تھے۔ کلچرل اکیڈمی والے غلام محمد نور کی یاد میں ہر سال ایک تقریب کا انعقاد کرتی ہے اور حال ہی میں ایک شیرازہ نمبر بھی شائع کیا ہے۔ ہم اُن کے شکر گزار ہیں‘‘۔ اپنے بارے میں ایک دلچسپ بات اُنہوں نے کہا کہ "ہم اصل میں پشمینا شال کا کام کرتے تھے، لیکن میرے دادا اور والد کی کام کی وجہ سے لوگوں نے ہم کو کتاب کا لقب دیا۔ رفتہ رفتہ ہماری پہچان ہی کتاب بن گئی۔"