سرینگر:نیشنل کانفرنس کے صدر اور ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کا کہنا ہے کہ اہل کشمیر نے مذہبی ہم آہنگی اور بھائی چارے کی مشعل کو صدیوں تک فروزاں رکھنے کے لیے بیش بہا قربانیاں پیش کی ہیں اور آج بھی کشمیر کا اکثریتی طبقہ اپنے اقلیتی طبقہ کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ جب پورے ملک میں مذہب کے نام پر خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی، اُس وقت صرف کشمیر ہی ایک ایسی جگہ تھی جہاں ایک بھی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا اور یہاں کے اکثریتی طبقے نے اقلیتوں کے مال و جان کے تحفظ کو یقینی بنایا اور ہر کسی مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ آپس میں مل جُل کر معمول کی زندگی گذارتے رہے۔ ان باتوں کا اظہار ڈاکٹر فاروق عبداللہ (رکن پارلیمان) نے ہفتے کے روز اپنی رہائش گاہ پر پنڈتوں کے وفد سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ Farooq Abdullah On Kashmir Normalcy
انہوں نے کہا کہ 1947 میں جب ملک بھر میں فرقہ وارانہ فسادات جاری تھے اور چاروں طرف قتل و غارت کا سماں تھا، اس وقت آنجہانی گاندھی جی کو صرف اور صرف کشمیر میں امید کی کرن نظر آئی تھی۔ نیشنل کانفرنس اقلیتی سیل کے نائب صدر شری امت کول کی صدارت میں آئے وفد نے ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو تفصیلاً اس بات کی جانکاری دی کہ کس طرح سے پُرامن احتجاج کررہے پنڈتوں کے خلاف طاقت کا بے تحاشہ استعمال کیا گیا اور اس دوران بچوں اور خواتین کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ نئی دلی جموں و کشمیر کی زمینی حقیقت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور نہ ہی حکمران چاہتے ہیں کہ یہاں کے اصل حقائق ملک کے عوام تک پہنچ پائیں۔ یہی وجہ ہے کہ راہل بھٹ کی ہلاکت کے خلاف پُرامن احتجاج کرنے والوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ حکمران جموں وکشمیر میں نارملسی اور حالات کی بہتری کے بلند بانگ دعوے کرتے رہتے ہیں لیکن جب زمینی صورتحال پر نظر ڈالی جاتی ہے تو حالات ان دعوﺅں کے عین برعکس نظر آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ راہل بھٹ کا تحصیل آفس میں گھس کر قتل کیا جانا حکمرانوں کے تمام دعوﺅں کی نفی کرتا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ لوگ سیاحوں اور یاتریوں کی آمد کو نارملسی کا پیمانہ بنا رہے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ 5 اگست 2019 کے بعد یہاں کے حالات انتہائی خراب ہوچکے ہیں۔