راجیہ سبھا کے رُکن شنتا چھتری کی جانب سے اٹھائے گئے سوال کے جواب میں وزارت داخلہ نے کہا:'مرکز کے حفاظتی اقدامات کے بعد ہونے والے مالی نقصانات کے بارے میں جموں وکشمیر حکومت کی طرف سے کوئی خاص رپورٹ موصول نہیں ہوئی ہے'
وزارت داخلہ کا مزید کہنا ہے کہ مرکز کی جانب سے صحت، سیاحت، زراعت، باغبانی اور دیگر شعبہ جات کے لیے متعدد ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔
واضح رہے کہ 5 اگست کو نریندر مودی کی زیر قیادت بی جے پی حکومت نے بھارتی آئین کے دفعہ 370 کو منسوخ کرنے اور ریاست کو دو مرکزی علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کرنے کے بعد ہر شعبہ اور طبقہ بُری طرح متاثر ہوا ہے اور اڑھائی لاکھ سے زائد لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں۔
باغبانی صنعت کشمیر کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، تقریباً 7 لاکھ افراد کا روزگار اس صنعت سے وابستہ ہیں، لیکن موجودہ صورتحال میں تجارتی سرگرمیاں نہ ہونے کے باعث وادی کی معشیت بُری طرح متاثر ہو گئی ہے۔قالین بافی، ریشم اور شال سازی، پیپر ماشی اور دیگر دستکاریاں تقریباً تین لاکھ سے زائد افراد کے روزگار کا وسیلہ تھیں لیکن شہر و دیہات میں رہنے والے ہزاروں نوجوان اس صورتحال کے نتیجے میں بیروزگار ہورہے ہیں۔
اسی طرح سیاحت سے بھی لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ سنہ 2018 میں 8.5 لاکھ سیاحوں نے وادی کشمیر کا رخ کیا لیکن رواں برس ان کی تعداد گزشتہ برس کے مقابلے 50 فیصد بھی نہیں ہے۔
چند روز قبل کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ اندسٹریز کے صدر شیخ عاشق حسین نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات کرتے ہوئے کہا تھا 5 اگست کے بعد جاری غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے 2 لاکھ سے زائد افراد بے روز گار ہو گئے ہیں اور اس میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔