نئی دہلی: جموں و کشمیر میں ’دہشت گردی کی فنڈنگ‘ کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کے ایک حصے کے طور پر قومی تحقیقاتی ایجنسی این آئی اے نے کالعدم تنظیم جماعت اسلامی کے خلاف دائر کئے گئے ایک کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں آج کشمیر کے بارہمولہ اور جموں کے کشتواڑ ضلع میں سولہ مقامات پر چھاپے مارے۔ این آئی اے کے ایک ترجمان کے مطابق ان چھاپوں میں قابل اعتراض مواد بشمول الیکٹرانک آلات ضبط کئے گئے۔
جماعت اسلامی پر حکام نے چار سال قبل پابندی عائد کی ہے اور اس کے اکثر لیڈروں کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔ اگست 2019 میں جب جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کی گئی تو جماعت اسلامی کے اکثر دفاتر کو سربمہر کردیا گیا اور اس تنظیم کے سبھی چوٹی کے لیڈر گرفتار کئے گئے۔ جماعت اسلامی کے زیرانتظام فلاح عام ٹرسٹ کے اسکولس کو بھی بند کردیا گیا۔ این آئی اے نے ایک بیان میں کہا کہ غیرقانونی سرگرمیوں کے انسداد سے متعلق ایکٹ کے تحت اگرچہ جماعت اسلامی پر 28 فروری 2019 کے روز پابندی عائد کی گئی تھی تاہم بعد میں یہ تنظیم پابندی کے باوجود "ٹیرر فنڈنگ" کی سرگرمیوں میں ملوث رہی۔ اس سلسلے میں این آئی اے نے پٹیالہ ہاؤس کی خصوصی عدالت میں درج ایک معاملے میں چارج شیٹ پیش کی۔ اس سے قبل عدالت نے 5 فروری 2021 کو اس معاملے میں سوموٹو کیس درج کیا تھا۔
کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں جمعرات کو جماعت اسلامی کے متعدد ارکان و حامیوں کے گھروں اور دفاتر (16 مقامات) پر تلاشی لی گئی، جن میں وادی کشمیر کے ضلع بارہمولہ میں 11 اور جموں خطے کے ضلع کشتواڑ میں باقی 5 مقامات شامل ہیں۔ تلاشی کے دوران قابل اعتراض مواد اور ڈیجیٹل آلات ضبط کیے گئے اور کیس میں مزید سراغ حاصل کرنے کے لیے ان کی جانچ کی جا رہی ہے۔ این آئی اے نے دعوی کیا ہے کہ کیس کی اب تک کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جماعت کے اراکین اندرون ملک اور بیرون ملک سے عطیات کے ذریعے، خاص طور پر زکوٰۃ، موعودہ اور بیت المال کی شکل میں رقومات جمع کررہے تھے۔ یہ رقومات خیراتی مقاصد کے لیے، جیسے کہ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں فلاحی کاموں کیلئے جمع کی جاتی تھیں لیکن این آئی اے کے مطابق اس کے بجائے یہ فنڈز جموں و کشمیر میں پُرتشدد اور علیحدگی پسند سرگرمیوں کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ این آئی اے نے دعوی کیا ہے یہ رقومات لشکر طیبہ، جیش محمد اور حزب المجاہدین کے کارکنوں تک جماعت اسلامی کے منظم نیٹ ورک کے ذریعے پہنچائی جاتی تھیں۔