سرینگر (جموں و کشمیر):حال ہی میں نیشنل ایروناٹکس اینڈ اسپیس ایڈمنسٹریشن (ناسا) ’’NASA‘‘ نے سیٹلائٹ کے ذریعے عکس کی گئی تصاویر - سیٹلائٹ امیجز - جاری کیں جن میں کشمیر کی معروف جھیلوں - ولر اور ڈل - کے تنگ ہونے کو ظاہر کیا گیا۔ اس حوالہ سے ماہرین نے خبردار کیا کہ جھیلوں کے تنگ ہونے سے حیاتیاتی تنوع اور لوگوں کی روزی روٹی پر منفی اثر پڑے گا۔ 12 جون کو ناسا نے ولر اور ڈل جھیل کی سیٹلائٹ تصاویر جاری کی تھی۔ یاد رہے کہ ڈل اور ولر مقامی آبادی کو نہ صرف پینے کا پانی فراہم کرتی ہیں بلکہ دونوں جھیلیں ایک وسیع زرعی اراضی کو بھی سیراب کرتی ہیں۔
کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ جیو انفارمیٹکس کے سینئر اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عرفان رشید نے کہا کہ ’’یہ آبی وسائل کشمیر کی سماجی و اقتصادی اور ماحولیاتی بہبود کے لیے اہم ہیں۔‘‘ ناسا تصاویر کے حوالہ سے انہوں نے کہا: ’’جب جھیلیں سکڑتی ہیں تو اس کا اثر لوگوں کی سماجی، اقتصادی صورتحال پر پڑتا ہے۔ ماحول دوست انفراسٹرکچر کا تصور نہ ہونے سے اس کا منفی اثر ماحولیات کے ساتھ ساتھ ان آبی ذخائر پر بھی مرتب ہوتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر عرفان نے بتایا کہ سرینگر میں بہت زیادہ زرعی اراضی ہوا کرتی تھی اور ریموٹ سینسنگ ڈیپارٹمنٹ نے دس سال پہلے تصدیق کی تھی کہ نصف زرعی (آبی اول) اراضی ختم ہو چکی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’زرعی (خاص کر آبی اول) اراضی اور آبی ذخائر خاص کر ڈل جھیل، ہیگام، ہوکر سر، نار کرہ اور وولر کے ارد گرد غیر منصوبہ بند شہر کاری (Urbanization)، تعمیری سرگرمیوں نے ان آبی ذخائر کے ساتھ ساتھ زرعی اراضی کو بھی ختم کر دیا۔‘‘