سرینگر (جموں و کشمیر):امریکی ماہر تعلیم نوم چومسکی کی جانب سے ’’بربریت کے شکار‘‘ کشمیر میں جی ٹونٹی سمٹ کے انعقاد پر کئی سوالات اٹھائے جانے کے چند گھنٹے بعد ہی جی ٹونٹی مندوبین نے بدھ کے روز شہر سرینگر کے مضافات میں واقع چند تاریخی مقامات کا دورہ کرنے کے ساتھ کشمیر کا اپنا تین روزہ دورہ سمیٹ لیا۔ سرینگر میں جی 20 اجلاس پیر کے روز ایک متنازع نوٹ پر شروع ہوا تھا جب تین ممالک - چین، سعودی عرب اور ترکی - اور مہمان ملک مصر نے اس تقریب کا بائیکاٹ کیا تھا۔ سنہ 2019 میں کشمیر کی خصوصی حیثیت دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد یہ پہلا بڑا بین الاقوامی ایونٹ تھا۔
چومسکی نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ ’’سیاحتی میٹنگ تو دور کی بات ہے، کشمیر میں جی 20 کے لیے کسی بھی قسم کی میٹنگ کا انعقاد غیر معقول (امر) ہے۔‘‘ ویڈیو پیغام میں چومسکی نے کہا کہ ’’ بر صغیر کی تقسیم (Partition) کے وقت کشمیر دیگر متاثرین میں سے ایک (فریق) تھا، پارٹیشن کے بعد کشمیر کی مشکلات آنے والے برسوں میں مزید بڑھ گئیں، بلکہ انہوں نے سنگین صورتحال اختیار کر لیا۔ حال ہی میںسنہ 2019 میں، بھارت نے اس قانونی معاہدے (دفعہ 370اور 35a) کو مکمل طور پر منہدم (منسوخ) کر دیا جس کے تحت جموں و کشمیر 1947 میں بھارت کے ساتھ جا ملا تھا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’(کشمیر) شاید کرہ ارض پر ایک ایسا خطہ ہے جہاں سب سے زیادہ فوجی ہیں، جہاں کی آبادی کو نہ صرف قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑ رہی ہیں، ان پر تشدد کیا جاتا ہے، نیز جبری طور لاپتہ کیے جانے کے علاوہ (کشمیر کی آبادی) آبادی بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم ہے۔‘‘