سرینگر (جموں و کشمیر): ریاست ہریانہ کو بھارت کا سپورٹس کیپٹل مانا جاتا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں جموں و کشمیر بھی کھیل کے شعبے میں تاریخ رقم کر رہا ہے۔ مارشل آرٹس کی بات کریں تو سعدیہ، چستی بہنے، آفرین حیدر اور انجمن نے پوری دنیا میں جموں و کشمیر کا نام روشن کیا ہے۔ اسی طرح حال ہی میں تیر اندازی میں کسٹوار کی شیتل دیوی، جموں کی انیش شرما اور کشمیر کے زاہد حسین نے ایشین گیمز میں تمغے حاصل کر کے یہ واضح کر دیا کہ جموں و کشمیر کے کھلاڑی کسی سے کم نہیں ہے۔ وہیں جب دنیا کے سب سے مقبول کھیل فٹبال کی بات آتی ہے، تو جموں و کشمیر کا دبدبہ ہر گیم کی طرح فٹبال میں بھی برقرار ہے۔ شفیع ناری، عبدالمجید ککرو، محرج دیں ودو اور اشفاق احمد لون نے کشمیر کا نام کافی عرصے تک فٹبال میں زندہ رکھا ہے، اس فہرست میں کوئی بھی خاتون فٹبال کھلاڑی نہیں تھی۔
لیکن اب اس خلاء کو بھی سرینگر کے رام باغ علاقے کی رہنے والی نادیہ نگہت نے دور کر دیا ہے۔ 26 برس کی نادیہ نے 12 برس کی عمر سے فٹبال کھیلنا شروع کیا اور آج وہ ناصرف کشمیر میں بلکہ پورے بھارت میں خواتین فٹبال کا ایک مقبول ترین نام ہیں۔ ای ٹی وی بھارت کے ساتھ ایک خصوصی گفتگو کے دوران نادیہ نے اپنی مشکلات اور زندگی کے حوالے سے چند اہم نقطوں پر بات کی اور بتایا کیسے اُنہوں نے مخالفت کے باوجود کھیل کو ترجیح دی۔ اُن کا کہنا ہے کہ "میں وادی کی پہلی خاتون فٹبال کھلاڑی نہیں ہوں لیکن پہلی خاتون کوچ ضرور ہوں۔ مجھ سے پہلے شفیع اور مجید صاحب کی بیٹیاں بھارتی خواتین فٹبال ٹیم کے لیے کھیل چکی ہیں۔ مجھے ابھی بھارتی ٹیم کی نمائندگی کرنے کا موقع تو نہیں ملا ہے لیکن انشاء اللہ وہ بھی جلد ملنے کی اُمید ہے۔"
مزید پڑھیں:
- سرینگر میں آئی لیگ فٹ بال کی واپسی
- "جدید بخشی اسٹیڈیم سے فائدہ اٹھا کر نوجوان کشمیر کا نام روشن کریں گے"
اُن کا مزید کہنا تھا کہ "جب میں نے کھیلنا شروع کیا، تب میں واحد خاتون فٹبال کھلاڑی تھی اور مجھے لڑکوں کے ساتھ کھیلنا پڑتا تھا۔ اس کے بعد جموں و کشمیر کی ٹیم میں کھیلا، پھر بھارت کی تمام لیگز میں کھیلا۔ اس وقت میں دہلی لیگ میں گھروال فٹبال کلب میں کھیل رہی ہوں۔ اس سے قبل کیرالا کے ڈوں بوسکو فٹبال کلب کے لیے کھیل چوکی ہوں۔" اپنی مشکلات کا تذکرہ کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ "میرے گھر والے میرے فٹبال کھیلنے کے حق میں نہیں تھے، کیونکہ لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے میری والدہ بھی مجھے روکتی تھی۔ ان سب باتوں کو نظر انداز کر کے میں نے کھیل جاری رکھا۔ جو لوگ پہلے اپنے بچوں کو میرے ساتھ رہنے، مجھ سے ملنے سے روکتے تھے آج وہی مجھے کہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کو فٹبال سکھاؤ۔"