سرینگر:چار سال کے طویل عرصے کے بعد آج میر واعظ محمد عمر فاروق کی نظر بندی ختم کر دی گئی۔ واضح رہے کہ 2019 میں دفعہ 370 کی منسوخی سے قبل ایک روز پہلے انتظامیہ نے میرواعظ کو گھر میں نظر بند رکھا ۔اس دوران حکام نے میرواعظ کو تاریخی جامع مسجد سرینگر میں نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔
جموں وکشمیر کے تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے میرواعظ ڈاکٹر مولی محمد فاروق کی رہائی کا خیر مقدم کیا۔پیپلز ڈیمکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے کہا کہ یہ بد قسمتی کی بات ہے کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد یہاں کے بہت سارے مذہبی رہنماؤں کو قید یا نظر بند کر کے رکھا گیا۔ انہوں نے کہا کہ میرواعظ کی رہائی پر بی جے پی سمیت ان کی ہم جماعت پارٹیاں یہ کیہ رہی ہے کہ میرواعظ کی رہائی ان کی بدولت ہی ممکن ہوپائی۔انہوں نے کہا کہ میرواعظ مذہبی پیشوا ہیں اور ان کو چار برس تک نظر بند رکھنا انسانیت اور جمہوری نظام کے خلاف ہے۔
وہیں جموں وکشمیر نیشل کانفرنس کے نائب صدر و جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ اتنی دیر تک میرواعظ کو گھر میں نظر بند رکھنا اچھی بات نہیں تھی اب دیر آیا درست آیا۔
انہوں نے کہا کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے وقت کئی رہنماؤں کو گھروں میں نظر بند کیا گیا اور کچھ لوگوں کو ریاست کے باہر جیل میں رکھا گیا ہیں۔زیادہ تر لوگوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکٹھایا اور رہائی حاصل کی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے میرواعظ پر کوئی احسان نہیں کیا کیونکہ چار سال گھر میں نظر بند رکھنے کے بعد میر واعظ نے ہائی کورٹ سے رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ نے جب میرواعظ کی رہائی کا نوٹس میں لیا تو حکومت مجبور ہوئی اور انہیں میرواعظ کو چھوڑنا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ میرواعظ کو 212 جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ لوگوں کی نظریں میر واعظ پر ہونگی اور ہم چاہیتے ہے کہ میرواعظ نہ صرف جامع مسجد بلکہ باہر بھی اپنی منصبی سرگرمیوں کو بحال کریں۔
انہوں نے کہا کہ کئی سارے ایسے مسائل ہیں جن میں میرواعظ کی رہنمائی کلیدی رول ادا کرے گی۔سماج میں منشیات کی لت اور سماجی بے راہ روی کے لیے میرواعظ اپنا رول ادا کر سکتے ہے۔