وجے کمار نے کہا کہ ورچوول نمبرات کا استعمال پوری دنیا میں کیا جارہا ہے جو اب ہمارے لیے ایک چلینج بن گیا ہے۔
آئی جی پی نے یہ باتیں منگل کی صبح سرینگر کے مضافاتی علاقے ہمہامہ میں واقع سی آر پی ایف کے ریکروٹ ٹریننگ سینٹر میں ہلاک شدہ دو سی آر پی ایف اہلکار کی جسد خاکی پر گلہائے عقیدت پیش کرنے کی تقریب کے حاشیے پر نامہ نگاروں سے کہیں۔
انہوں نے کہا: 'عسکریت پسند ورچوول سم کارڈز نہیں بلکہ ورچول نمبرز کا استعمال کرتے ہیں، یہ کوئی بھی اپ لوڈ کرسکتا ہے، یہ پوری دنیا کے لیے ایک چلینج ہے لیکن ہم اس کا بھی ٹیکنالوجی کی وساطت سے حل نکال رہے ہیں'۔
دریں اثنا سیکورٹی ذرائع کا ماننا ہے وادی میں ورچوول نمبرات کے استعمال میں روز بروز اضافہ درج ہو رہا ہے جو سیکورٹی ایجنسیوں کے لیے پریشانی کا باعث بن گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ورچوول نمبرات کے استعمال کی اس نئی ٹکنالوجی کے بارے میں سال 2019 میں جانکاری حاصل ہوئی جب پلوامہ حملے میں ملوث جیش محمد سے وابستہ خودکش حملہ آور کو ورچوول نمبر فراہم کرنے والے ورچوول سروس پرووائڈر کی تفصیلات طلب کرنے کے لئے امریکہ کو ایک گذارش روانہ کی گئی تھی۔
قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) اور دیگر سکیورٹی ایجنسیوں نے اپنی تفصیلی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا تھا کہ پلوامہ خود کش حملے میں زائد از 40 ورچوول نمبرات کا استعمال کیا گیا تھا اور وادی کے سائبر سپیس میں ایسے کئی سم کارڈز اسمتعمال میں ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سرحد پار عسکریت پسند ورچوول نمبرات کا استعمال کر کے اپنے ساتھیوں کے ساتھ رابطہ کرتے ہیں جو انہیں ایک غیر ملکی سروس پرووائڈر فراہم کرتا ہے۔
اس ٹیکنالوجی میں کمپیوٹر کے ذریعے ایک ٹیلی فون نمبر تیار کیا جاتا ہے اور صارف اپنے سمارٹ فون پر سروس پرووائڈر کی ایپلی کیشن ڈاؤن لوڈ کرتا ہے۔
نمبر کو سوشل میڈیا سائٹس جیسے واٹس ایپ، فیس بک، ٹیلی گرام یا ٹویٹر کے ساتھ بھی منسلک کیا جاتا ہے اور سروس کو متحرک کرنے کے لئے ویری فکیشن کوڈ ان ہی سائٹس پر آتا ہے۔