سرینگر: وادی کشمیر کی خواتین جہاں تعلیم، صحت، فن، ادب، آرٹ اورٹیکانالوجی سمیت دیگر شعبہ جات میں نام کما رہی ہیں، وہیں یہاں کی کئی خواتین اب کامیاب کاروباری کے طور پر بھی ابھر رہی ہیں۔ ہم بات کر رہے ہیں سرینگر کی شاہینہ اختر کی جو تاریخی دستکاری صنعت "کانی شال" سے وابستہ ہیں اور ان کا شمار وادی کشمیر کی کامیاب خاتون کاروباریوں میں ہوتا ہے۔ ایک خاتون دستکار کے طور کام کی شروعات کرنے والی شاہینہ اختر کو آج کی تاریخ میں کانی شال کے کاروبار میں نہ صرف مقامی بلکہ ملکی سطح پر بھی جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ Kani Shawl Entrepreneur
سرینگر کے نوشہرہ علاقے سے تعلق رہنے والی شاہینہ اپنے 6 بہین بھائیوں میں ایک اکیلی ہیں جنہوں گریجویشن تک پڑھائی کی ہے۔ مالی تنگی کی وجہ سے اگرچہ یہ آگے کی پڑھائی نہیں کرپائیں لیکن گھر والوں کے کہنے پر 2004 میں اس ہونہار خاتون نے بھائی سے کانی شال بننے کا ہنر سکھا۔ کچھ الگ کرنے کی چاہ، خود اعتمادی اور حوصلے سے شاہینہ نے یہ ہنر نہ صرف کافی کم وقت میں سیکھا بلکہ اپنے گھر کی مالی حالت بہتر کرنے میں بھی اہم رول ادا کیا۔ وہیں انہوں نے دستکاری صنعت کو فروغ دینے اور بچولیوں کی مداخلت کو ختم کرنے کے لیے از خود دستکاری نمائشوں میں حصہ لینا شروع کیا جو کہ ان کے لیے کافی سودمند ثابت ہوا۔ Woman Kani Shawl Entrepreneur
کانی شال لومز میں بطور خاتون دستکار کام کرنے والی شاہینہ کو پہلے پہل اگرچہ لوگوں کے تانے بھی سننے پڑے تاہم انہوں نے ہمت اور حوصلے سے کام لے کر اپنے خوابوں کو حقیقیت کا روپ دیا۔ آج اس با ہنر اور با صلاحیت خاتون کے شہر سرینگر سمیت گاؤں دیہات میں بھی کانی شال کے اپنے کئی لومز چل رہے ہیں جن میں سینکڑوں کی تعداد مرد و خواتین دستکار اپنا روزگار کما رہے ہیں۔
شاہینہ نے اب تک ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مخلتف دستکاری نمائشوں میں حصہ لیا ہے جس میں شاہینہ کے کام کی نہ صرف ستائش کی گئی بلکہ ان کے شالز کی بھی خوب بکری ہوئی۔ شاہینہ کہتی ہیں 'ایک وقت میں ہم سال بھر صرف دو لاکھ روپے کا منافع کماتے تھے لیکن جب میں نے پہلی مرتبہ از خود نمائش میں حصہ لیا تو اس وقت ہم نے خالص دو ہفتے میں ہی اپنے بننے ہوئے کانی شالز پر 90 ہزار روپے کا منافع کمایا اور یہ کامیابی کی پہلی سیڑھی تھی جس کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔