گذشتہ چند ہفتوں سے جنگلی جانوروں کا انسانی بستیوں کی جانب رخ کرنے کی خبریں مسلسل سامنے آرہی ہیں جو اس بات کی غماز ہیں کہ انسانوں اور جانوروں کے درمیان تصادم آرائی کے واقعات میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
انسانوں اور جانوروں کے درمیان تصادم کی کیا وجہ ہے؟ - تندوؤں کی بڑھتی موجودگی
حالیہ برسوں کے دوران کشمیر کے مختلف علاقوں میں چھوٹے بچوں سمیت متعدد افراد تندوؤں اور ریچھوں کے حملوں کا شکار ہو کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ جنگلات سے متصل علاقوں میں جانور غذا کی تلاش میں نہ صرف انسانوں کو نشانہ بناتے ہیں بلکہ دیگر جانداروں کو بھی اپنا شکار بنانے کی تاک میں رہتے ہیں۔
ریچھ کے علاوہ اب تندوے نے بھی انسانی بستیوں میں دہشت مچا رہے ہیں۔ حال ہی میں بڈگام ضلع کے اوم پورہ میں تیندوے نے ایک چار سالہ معصوم بچی کو اپنا شکار بنایا۔ اس کے بعد ٹنگمرگ میں بھی ایک بچے کو تندوے کے پنجے سے چھڑایا گیا۔
اسی طرح کے واقعات اس سے قبل بھی وادی کے مختلف علاقوں میں رونما ہوئے ہیں۔ جنگلی جانوروں کی جانب سے انسانوں پر حملہ آور ہونے سے نہ صرف اب تک متعدد قیمتی انسانی جانیں تلف ہوئیں ہیں، بلکہ بہت سے لوگ بری طرح زخمی ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: چار سالہ بچی تیندوے کا شکار بنی، ذمہ دار کون؟
جنگلی جانوروں کے انسانی بستوں کی جانب سے بھٹکنے کے معاملے میں جنگلات اور گردونواح میں موجود ان کے آماجگاہوں میں دن بدن کمی واقع ہونے کا رجحان کلیدی طور کار فرما ہے۔ جنگلاتی علاقوں میں انسانوں کی بے جا مداخلت سے ہی جانور اپنی آماجگاہ سے بے دخل ہونے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
وہیں اب انسانی بستیوں کے قریب افزائش پاچکے تندوے آسان شکار کے عادی ہوچکے ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ نرسریوں میں افزائش پاچکے تندوے قدرتی ماحول کا حصہ نہیں ہیں اس لیے ان کو قابو میں کرنے کی ضرورت ہے۔
وادی کشمیر میں گزشتہ کئی برسوں میں انسانوں اور جانوروں کے درمیان تصادم آرائی کے بڑھتے واقعات کے دوران 118 انسانی جانیں تلف ہوئی ہیں جبکہ دو ہزار کے قریب افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔