سرینگر: جموں و کشمیر کے دارالحکومت سرینگر شہر سے تقریباً 18 کلومیٹر دور واقع خانمو گاؤں کے رہنے والے عبدالاحد وانی نے جھیل کی بجائے اپنے کھیتوں میں ندرو کی پیداوار کی ہے جو اپنے آپ میں منفرد کارنامہ ہے۔ عبدالاحد وانی کو ان کے علاقے میں 'پلانٹیشن چاچا' کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ Nindru in the Wular Lake
کھیتوں میں ندرو کی پیداوار ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے عبدالاحد کا کہنا تھا کہ 'میری زمین گیلی تھی لیکن دھان اور مکئی کی پیدا وار اچھی نہیں ہو رہی تھی، اس لیے میں نے کچھ الگ کرنے کا سوچا اور ماہرین سے مشورہ کر کے ندرو کی کاشت کی۔ عبدالاحد وانی نے کہا کہ 'میں نے امسال جون کے مہینے میں کاشت کی تھی اور آج اس کی فصل تیار ہوئی ہے۔ میری ایک کنال زمین سے ابھی تک چار کوئینٹل ندرو پیدا ہو چکے ہیں اور ماہرین کا اندازہ ہے ابھی مزید 6 کوئینٹل حاصل ہوں گے۔ Nadru Farming in jammu and Kashmir
انہوں نے مزید کہا کہ 'ندرو کی کاشت کے لیے زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں آس پاس کوئی آبی وسائل بھی نہیں ہیں اس لیے مجھے ٹیوب ویل کھودوانا پڑا۔ اس کاشت کے لیے زمین میں کم از کم 6 انچ پانی ہونا چاہیے کیوں کہ کاشتکاری کے وقت پانی نکالنا پڑتا ہے۔ عبدالاحد وانی اپنی پیداوار کو کسی منڈی میں نہیں بلکہ مقامی بازار میں فروخت کرتے ہیں۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ زمین میں اگائے گئے ندرو آبی ندرو کے مقابلے کھانے میں زیادہ لذیذ ہوتے ہیں۔
عبدالاحد وانی کا یہ کمال دیکھنے کے لیے لوگ دور دور سے آتے ہیں۔ ایک مقامی شخص نے بتایا کہ 'انہوں نے پہلی بار زمین سے اگایا گیا ندرو دیکھا ہے۔ یہ بہت دلچسپ تجربہ ہے۔
عبدالاحد وانی اب ندرو کے علاوہ سنگھاڑے کی بھی کاشت کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں لیکن وہ چاہتے ہیں کہ پہلے اُن کے اس تجربے کے ہر پہلو کی جانچ ہو اور خامیوں کو دور کیا جائے۔