شیر کشمیر یونیورسٹی آف ایگریکلچرل سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی جموں کے پروفیسر آر کے گپتا کا کہنا ہے کہ ٹڈیوں کے جھنڈ امکانی طور پر عنقریب پنجاب اور جموں وکشمیر میں داخل ہو جائیں گے۔ بقول ان کے ٹڈیوں کے جھنڈ اس وقت گجرات، مہاراشٹرا، اتر پردیش اور مدھیہ پردیش میں سرگرم ہیں اور وہ عنقریب پنجاب اور جموں و کشمیر میں وارد ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ تیز ہوائیں چلنے کے ساتھ ہی یہ جھنڈ تیزی سے پھیل جائیں گے اور فصلوں کے بے پناہ نقصان کا باعث بن سکتے ہیں۔ آر کے گپتا نے بتایا کہ امسال ٹڈیوں کے حملے زیادہ ہی باعث تشویش ہیں کیونکہ پہلے ان کے حملے راجستھان تک ہی محدود رہتے تھے لیکن رواں برس یہ تیزی سے باقی حصوں میں بھی پھیل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سال گزشتہ جموں اور کٹھوعہ کے کچھ علاقوں میں گراس ہوپرس کے حملے پر ہوئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ان کا پھیلاؤ چوہوں، پرندوں وغیرہ کی گھٹتی آبادی کی ایک وجہ ہے۔
آر کے گپتا نے کہا ’’ٹڈی در اصل گراس ہوپرس کی ہی ایک قسم ہے۔ ایک کلو میٹر اراضی پر پھیلا ٹڈیوں کا جھنڈ اتنی غذا کھاتا ہے جتنا 35 ہزار لوگ کھاتے ہیں اور امسال تیز ہوائیں چلنے کے پیش نظر وہ تیزی سے پھیل بھی سکتے ہیں اور معمول سے زیادہ غذا بھی کھا سکتے ہیں۔‘‘
آر کے گپتا کے مطابق بھارت میں ٹڈیوں کی صرف چار ہی قسمیں پائی جاتی ہیں اور ان میں سے ریگستانی ٹڈی سب سے خطرناک قسم ہے جو ہوا کے ساتھ ایک دن میں ڈیڑھ سو کلو میٹر کی مسافت طے کرسکتی ہے۔