اردو

urdu

ETV Bharat / state

وادی کشمیرمیں کورونا وائرس سے آئی تبدیلیاں

کورونا وائرس: موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی وادی کشمیر کے باغات سبز چادر اور درخت سبز پوشاک پہن کر جو دلکش نظارہ پیش کرتے تھے ان کولفاظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔

وادی کشمیر میں کورونا وائرس سے  آئی تبدیلیاں
وادی کشمیر میں کورونا وائرس سے آئی تبدیلیاں

By

Published : Apr 1, 2020, 2:54 PM IST

یہ وہی مہینہ ہے جب بادام کے پیڑوں پر شگوفے اور پرندوں کی چہچہاہٹ کے بیچ لمبی چھٹیوں کے بعد اسکولوں کی طرف جاتے بچے تاہم آج عالمی وباء کرونا وائرس کے چلتے تعلیمی ادارے بند ہیں، سڑکیں ویران ہیں اور باغوں میں بہار تو ہے لیکن لطف اٹھانے کے لیے کوئی نہیں۔

وادی کشمیر میں کورونا وائرس سے آئی تبدیلیاں

پوری دنیا کے ساتھ ساتھ جموں کشمیر میں بھی کورونا وائرس کے مزید پھیلاؤ کو روکنے کے لیے انتظامیہ نے کئی احتیاطی تدابیر اپنائیں جن میں عوام کو اپنے گھروں میں محدود رہنے کی ہدایت بھی شامل ہے۔

s

اب ایسے میں عوام کے اور انتظامیہ کے کئی منصوبے خاک ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ دفعہ370 کے خاتمے کے بعد جموں و کشمیر پہلے ہی کافی نقصانات میں تھا۔ تاجر، طلباء ، ٹورزم سے وابستہ افراد گزشتہ آٹھ مہینے نقصانات کو برداشت کرنے کے بعد موسم بہار سے کافی امیدیں لگائے بیٹھے تھے تاہم ایک بار پھر مایوسی ہاتھ لگی ہے۔

وادی کشمیر میں کورونا وائرس سے آئی تبدیلیاں

ای ٹی وی بھارت نے اس تعلق سے وادی کے ہر فقے و شعبے سے وابستہ لوگوں سے بات کی اور انہیں ہو رہی مشکلات کی ایک فہرست تیار کی۔

وادی کشمیر میں کورونا وائرس سے آئی تبدیلیاں

* وادی کا مشہور ٹیولپ گارڈن نہیں کھلا۔۔۔۔

ایشیا کا سب سے بڑا ٹیولپ گارڈن کورونا وائرس کے چلتے ویران ہے۔ پھول کھلے ہیں تاہم ان کی خوبصورتی کی تعریف کرنے والا کوئی نہیں۔

وادی کشمیر میں کورونا وائرس سے آئی تبدیلیاں

گزشتہ برس 2.58 لاکھ مقامی اور غیر مقامی سیاح وادی کشمیر ٹیولپ گارڈن دیکھنے آئے تھے۔

انتظامیہ کو امید ہے کہ اس بار ٹیولپ گارڈن دیکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا اس لیے باغ میں ٹیولپ کے پھولوں کی تعداد میں بھی اضافہ کرکے 13لاکھ کر دی گئی تھی۔ جن میں بیرون ممالک سے لائی گئی گئی چار نئی قسمیں بھی شامل تھیں۔

وادی کشمیر میں کورونا وائرس سے آئی تبدیلیاں

مارچ کے مہینے کی 17 تاریخ کو ٹیولپ گارڈن عوام کے لیے کھولا جانا تھا تاہم یہ ہو نہ سکا۔

وادی کشمیر میں کورونا وائرس سے آئی تبدیلیاں

* اسکول ایک بار پھر بند۔۔۔

وادی کشمیر میں کورونا وائرس سے آئی تبدیلیاں

تقریبا سات مہینے بند رہنے کے بعد جموں و کشمیر کے تمام سکول فروری مہینے کی چوبیس تاریخ کو کھلے ضرور تاہم تاہم 17مارچ کو ایک بار پھر بند کیے گئے۔ پہلے وادی میں دفعہ 370 کے خاتمے سے پیدا ہوے نامسائد حالات اور اب کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو لے کر خدشات۔

وجہ کچھ بھی ہو وادی کے طلباء کی تعلیم میں کافی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ یہ برپائی کیسے ہوگی کوئی نہیں جانتا۔

* آن لائن کلاسز کا دور۔۔۔

وادی میں تعلیمی شعبے پر پڑھ رہے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے کئی سکولوں نے آن لائن اور واٹس ایپ کے ذریعے طلباء کو تعلیم کے نور سے روشن کرنے کی پہل کی تاہم سست رفتار انٹرنیٹ کی وجہ سے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اساتزہ کا کہنا ہے کہ ہم اپنے گھروں میں بیٹھ کر گوگل کلاسز یا واٹس ایپ کے ذریعے اپنے طلبا کو پڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن فورجی انٹرنیٹ خدمات نہ ہونے کی وجہ سے کافی مشکل ہورہی ہے۔

ان کا کہنا ہے وباء سے بچنے کی تدابیر ہے کہ ہم اپنے گھروں میں محدود رہیں تاہم تیز رفتار زندگی میں تعلیم بھی ضروری ہے۔ ہمارے بچے کی تعلیم گذشتہ آٹھ مہینوں سے لگاتار متاثر ہورہی ہے۔

انتظامیہ کو چاہیے کہ اب وہ وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے وادی میں فورجی انٹرنیٹ خدمات بحال کریں تاکی طلباء کو مزید نقصان اٹھانا نہ پڑے۔

* مساجد ویران۔۔۔

کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے یے کی گئی احتیاطی تدابیر کے تحت سماجی اجتمعات پر پابندی عائد ہے۔

جس کے پیش نظر جموں و کشمیر کی تمام مساجد اور مذہبی مقامات ویران پڑے ہیں۔

ایسا جموں و کشمیر کی تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے۔ مساجد میں تب بھی اذان گونجتی ہے لیکن مندر، گرجا گھر اور گردواروں میں سناٹے کے علاوہ کچھ نہیں۔

* صحافت پر اثر۔۔۔

سرینگر میں واقع ایوان صحافت کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خلاف احتیاطی تدابیر کے تحت بند ہونے والا پہلا ادارہ بنا۔ اس کے بعد دوردرشن کشیر نے بھی اپنی صوبائی نشریات کچھ عرصے تک معطل کردی۔ وہی گزشتہ روز وادی میں اخبار تقسیم کرنے والے افراد نے بھی کرونا وائرس کے پیش نظر اپنے کام سے کنارہ کشی کرلی ہے۔

* وادی کی صنعت۔۔۔

گزشتہ برس پانچ اگست کے بعد سے ہی وادی کے تاجر اور صنعت مالکان نقصانات برداشت کرتے جا رہے ہیں۔ ان کا دعوی ہے کی امہینوں میں ان کی کمائی نہ کے برابر ہے۔ مارچ اور اپریل کے مہینے سے انہیں کافی امیدیں تھیں۔ انہیں یقین تھا کی جموں و کشمیر کا بازار ایک بار پھر گرم ہوگا اور گزشتہ آٹھ مہینے میں انہیں ہوئے نقصان کی کی برپائی ہوگی۔ تاہم ایسا ہوناسکا۔

* ماسک، گلاؤز اور سینیٹرزوادی۔۔۔

کشمیر میں اگر اس وقت کچھ بک رہا ہے تو وہ یا تو ماسک ہے یا گلاؤز یا پھر سینیٹر۔ کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے یہ تینوں چیزیں شدید ضرورت ہے۔ جہاں بازاروں میں بڑھتی مانگ کی وجہ سے ماسک، گلاؤز اور سینیٹرز کی کمی کی شکایت موصول ہو رہی تھی۔ وہی مقامی غیر سرکاری تنظیموں اور رضاکاروں نے عوام کو ماسک، گلاؤز اور سینیٹرز مہیا کرنے کا ذمہ اٹھایا۔ کچھ غیر سرکاری تنظیمیں یہ سب مفت بانٹ رہی ہے وہی کچھ رضاکار سستے داموں لوگوں کو فراہم کر رہی ہے۔

* کورونا وائرس کے خلاف مرکزی سرکار اور جموں و کشمیر کے انتظامیہ عوام کو کورونا وائرس کے خلاف احتیاطی تدابیر کے تحت اپنے گھروں میں محدود رہنے کی ہدایت دے رہی ہے وہی ڈاکٹر، حفاظتی اہلکار اور صحافیوں کو اس وائرس کے خلاف جنگ کی سپاہی کہا جا رہا ہے۔

وزیراعظم نریندر مودی نے قوم کو خطاب کے دوران حفاظتی اہلکار، ڈاکٹروں اور صحافیوں کے جانب سے ان صورتحال میں عوام کے لیے سڑکوں پر نکل کر کام کرنے کی تعریف کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر، حفاظتی اہلکار اور صحافی کرونا وائرس کے خلاف ہماری جنگ کے سپاہی ہیں۔

کئی ڈاکٹروں نے بھی سماجی رابطہ کی ویب سائٹوں پر عوام سے گزارش کی کہ وہ گھروں میں رہیں کیونکہ تمام ڈاکٹر اس وقت آن ڈیوٹی ہے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details