’’جموں وکشمیر ایک حساس علاقہ ہے، شدت پسندی کا مقابلہ کرنا سب سے بڑا چلینج ہے۔ ملک کی باقی ریاستوں اور یوین ٹیریٹریز کے مقابلے میں یہاں کام کرنا مختلف ہے۔ ہاں دفعہ 370کی منسوخی کے بعد جموں و کشمیر خاص کر وادی میں امن و قانون کی صورتحال میں کافی حد تک بہتری آئی ہے۔‘‘ ان باتوں کا اظہار سرینگر سیکٹر کی آئی جی، سی آر پی ایف، چارو سنہا نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ ایک خاص بات چیت کے دوران کیا۔
انہوں نے کہا کہ نکسل متاثرہ ریاستوں کے علاوہ آندھرا پردیش اور بہار میں کام کرنے کا تجربہ الگ ہے اور جموں وکشمیر میں مختلف قسم کے چلینجز ہیں۔ جن کو الگ الگ طریقے سے نمٹا جاسکتا ہے، اور وادی کشمیر میں عسکریت پسندی ایک بڑا معاملہ اور چلینج ہے جس سے ہر طرح سے نمٹا جا رہا ہے۔
چارو سنہا نے کہا کہ گزشتہ دو برسوں کے دوران کشمیر میں عسکریت پسندی کو کافی حد تک قابو کیا جا چکا اور نئی اسٹریٹیجی اپنا کر اسے مزید قابو میں کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے چارو سنہا نے کہا کہ جموں و کشمیر خاص کر وادی میں امن وقانون کی صورتحال میں کافی بہتری دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ’’پتھر بازی کے واقعات میں بہت حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ ان دو برسوں کے دوران کشمیر میں امن و امان قائم ہو جانا ایک مثبت پہل کے طور تصور کیا جانا چائیے اور اسی طرح کے ماحول میں ترقی اور خوشحالی کا راز مضمر ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں آئی جی نے کہا کہ ’’کسی بھی خطے یا علاقے کے امن امان کی خاطر نوجوانوں کو بر سر روزگار کرنا کافی اہمیت کا حامل ہے۔ جس کے لیے سی آر پی ایف کئی پروگرام چلا رہی ہے تاکہ یہاں کے بے روزگار پڑے لکھے نوجوانوں کو روزگار حاصل کرنے کے مواقع فراہم کئے جاسکے۔‘‘