سرینگر: جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ و پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے جمعہ کے روز دیش بھگت یونیورسٹی (ڈی بی یو) میں کشمیری طلبہ کو ان کی مرضی کے بغیر منتقل کرنے کے فیصلے کے خلاف احتجاج کرنے والی طالبات پر لاٹھی چارج کی مذمت کی۔
سماجی رابطہ ویب سائٹ ایکس پر اپنا ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے محبوبہ مفتی نے کہا کہ "کشمیری طلبہ پر لاٹھی چارج اور یونیورسٹی کے خلاف احتجاج کرنے پر لڑکیوں کے ساتھ بدسلوکی، جس نے ان کے مستقبل کو تباہ کر دیا ہے بالکل غیر ضروری ہے۔ بھگونت مان جی سے گزارش ہے کہ مہربانی کرکے اس معاملے کو دیکھیں۔ اس طرح کے اقدامات کشمیریوں کو اور بھی الگ کر دیتے ہیں۔"
وہیں نیشنل کانفرنس کے ترجمان عمران نبی ڈار نے ایکس پوسٹ میں کہا کہ "قابل مذمت۔ کشمیری طلبہ بشمول لڑکیاں جو یونیورسٹی کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں جس نے ان کے مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا ہے، لاٹھی چارج کرنا سراسر بلا جواز ہے۔ میں بھگونت مان جی سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کریں۔ یہ کارروائیاں کشمیریوں کو مزید تنہا کرنے کا کام کرتی ہیں۔"
وہیں جموں و کشمیر اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن نے کشمیری طلبہ کی مدد کے لیے مرکزی وزیر صحت ڈاکٹر منسکھ منڈاویہ اور پنجاب کے وزیر اعلی بھگونت مان کو مکتوب لکھا ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ "کشمیری نرسنگ طلبہ گزشتہ دو ماہ سے یونیورسٹی انتظامیہ کے سردار لال سنگھ کالج میں اپنے داخلوں کی منتقلی کے "من مانی" فیصلے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں جسے انڈین نرسنگ کونسل اور پنجاب نرسنگ رجسٹریشن کونسل سے منظوری حاصل نہیں ہے۔
اس کے مزید کہا گیا ہے کہ"آج پرامن احتجاج کرتے ہوئے، طالبات کو لاٹھی چارج کا نشانہ بنایا گیا اور اس غیر منصفانہ فیصلے کے خلاف اپنی آواز کو خاموش کرنے کے لیے یونیورسٹی کی عمارت کے اندر ہی قید کر دیا گیا۔"
مزید پڑھیں:Kashmir Students Beaten in Jammu: جموں میں کشمیری طلبہ پر حملہ، طلباء کا احتجاج
ایسوسی ایشن کے قومی کنوینر ناصر کھوہامی نے بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ "یونیورسٹی نے اس سال یک طرفہ طور پر ستر کے قریب طلبہ کو منتقل کیا ہے۔ یونیورسٹی کی طرف سے یہ یک طرفہ اقدام گزشتہ سال سے جاری ہے جب جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے تقریباً 500 طلبہ، جو دیش بھگت یونیورسٹی میں مختلف پیرا میڈیکل کورسز کر رہے تھے، خود کو ایسی صورتحال میں پھنس گئے جو ان کے قابو سے باہر تھی۔