’’اینٹ بھٹوں پر کام کرنے کی غرض سے بھاری تعداد میں بیرون ریاستوں سے مزدور کشمیر آ رہے ہیں۔ سرکار کی جانب سے اجازت ملنے کے بعد ہی یہ مزدور آ رہے ہیں۔ رہنما خطوط پر من و عن عمل کروا کر ہی انہیں وادی آنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔‘‘ ان باتوں کا اظہار لیبر کمشنر عبد الراشید وار نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات چیت کے دوران کیا۔
کشمیر وارد ہونے والے مزدور خود کو رجسٹر کریں انہوں نے کہا کہ یومیہ 2ہزار مزدوروں کو ہی وادی وارد ہونے کی اجازت دی جا رہی ہے اور جو بھی مزدور ابھی تک یہاں وارد ہوئے ہیں وہ خصوصی طور اینٹ بھٹوں میں کام کرنے کی غرض سے آئے ہیں اور باہر کی ریاستوں یا یو ٹیز سے مزدوروں کے آنے کا سلسلہ ابھی برابر جاری ہے۔
لیبر کمشنر نے کہا کہ ’’جو بھی مزدور کشمیر آتے ہیں انہیں واضح کئے گئے ایس او پیز کے مطابق تھرمل سکرینگ کے علاوہ کووڈ19 ٹیسٹ عمل میں لایا جاتا ہے۔ اس کے بعد ہی انہیں اپنی اپنی منزل کی طرف جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ ٹیسٹ رپورٹ آنے کے بعد ہی انہیں اینٹ بھٹوں میں کام کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔‘‘
رجسٹریشن کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں لیبر کمشنر نے کہا کہ ’’باہر سے آنے والے تمام مزدوروں کو خود کو رجسٹر کرنا ضروری ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ابھی تک جن مزدوروں کی رجسٹریشن محکمے نے عمل میں لائی ہے وہ صرف بھٹوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی ہے۔
تاہم انہوں نے زور دیا کہ جو بھی یہاں مزدور کام کے لیے آئے ہیں ان کو مختلف اضلاع میں قائم محکمے کے اے ایل سی کے دفاتر جا کر خود کو درج کرانا چاہیے تاکہ کسی بھی وقت ان کے مسائل کا ازالہ کیا جا سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مزدور کو خود رجسٹر کرنے کے لیے کسی بھی ایجنٹ کا سہارا نہیں لینا چاہیے بلکہ مختلف اضلاع میں محکمے کے دفاتر سے خود رابطہ کرنا چاہیے، تاکہ کسی کے بہکاوے یا جھانسے میں آئے بغیر ہی صاف وشفاف طریقے سے رجسٹریشن عمل میں لائی جا سکے۔
وہیں ان کا کہنا تھا کہ عالمی وبا کورونا وائرس کی وجہ سے عائد لاک ڈاؤن کے دوران محکمے کی جانب سے مزدوروں کی ماہانہ مالی امدد کی غرض سے ایک ہزار روپے کی قسط کے حساب سے 4 قسطیں واگزار کی گئیں تاکہ کچھ حد تک ان کی مالی معاونت ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک 64کروڑ روپے امداد کے طور پر واگزار کئے جا چکے ہیں جبکہ مزید 15سے16 کروڑ کی رقم خرچ کی جا رہی ہے۔
لیبر کمشنر عبد الرشید وار نے مزید کہا کہ مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لئے محکمہ کے پاس کئی اسکیمیں ہیں جن کا انہیں فائدہ اٹھانا چاہیے۔