سرینگر:وادی کشمیر میں ذیابیطس کے ایسے 50 فیصد مریض ہیں، جنہیں شوگر کی بیماری لاحق تو ہوتی ہیں لیکن انہیں علم ہی نہیں ہوتا ہے کہ وہ ذیابطیس سے متاثر ہیں۔ ایسے میں ان کا بروقت علاج ہی نہیں ہوتا ہے۔ان باتوں کا اظہار جی ایم سی سرینگر کے اسوسی ایٹ پروفیسر اور وادی کے معروف انڈوکرنالوجسٹ ڈاکٹر نظیر احمد پالہ نے ذیابطیس کے عالمی دن کے موقعے پر ای ٹی وی بھارت کے نمائندے پرویز الدین کے ساتھ ایک خاص بات چیت کے دوران کیا۔
انہوں نے کہا کہ وادی کشمیر میں 100 ذیابطیس کے مریضوں میں صرف 50 ہی علاج کرواتے ہیں جبکہ باقی 50 افراد علاج نہیں کرتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا ہے وہ شوگر بیماری کا شکار ہوچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر میں 9.5 فیصد لوگ ہیں جو کہ اس بیماری سے متاثر ہیں۔ایسے میں یہ بیماری چند برس پہلے 40 برس کے زائد کے لوگوں میں لاحق ہوتی تھی، لیکن اب نہ صرف 25 برس کے کم عمر کے نوجوان بلکہ اسکول جانے والے بچوں میں بھی یہ بیماری بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ مجموعی طور اگر دیکھا جائے تو کشمیر میں ذیابیطس ایک وبائی شکل اختیار کررہی ہے۔
بات چیت کے دوران انہوں نے کہا کہ ملکی سطح پر کیے گئے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مغربی ممالک کے مقابلے میں بھارت میں اس بیماری کے زیادہ لاحق ہونے امکانات پائے جاتے ہیں، کیونکہ طرز زندگی میں تبدیلی اور جسمانی سرگرمیاں محدود ہو جانے کی وجہ سے موٹاپا کے وجہ سے بھی یہ خدشہ پایا جاتا ہے۔
ڈاکٹر نظیر احمد پالہ نے کہا کہ کشمیر میں عام طور "ٹائپ ٹو" ذیابطیس زیادہ پائی جاتی ہے،جبکہ نوجوانوں اور بچوں میں" ٹائپ ون" شوگر کی بیماری دیکھی جاتی ہے۔ وہیں موٹاپے کے شکار افراد، پی کوس بیماری سے مبتلا خواتین میں شوگر کی بیماری ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
مزید پڑھیں: