قدیم اور تاریخی عبادت گاہوں کی موجودگی سے جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ کو تاریخی ضلع کی حیثیت حاصل ہے۔ ضلع سایحت کے لیے تو مشہور ہے ہی، ساتھ ہی یہاں موجود مختلف مذاہب کی عبادت گاہوں اور درگاہوں سے اس ضلع کی ایک الگ اور منفرد پہچان ہے۔
ایسی ہی تاریخی اور قدیم عبادت گاہوں میں یہاں کا سوریہ مندر شامل ہے. جو ضلع صدر مقام اننت ناگ سے تقریباً آٹھ کلو میٹر کی دوری پر، مٹن کہری بل کے مقام پر موجود ہے۔
سوریہ نام سے منسوب اننت ناگ میں واقع یہ مندر سوریا بھگوان کے لئے وقف کیا گیا تھا، مارٹنڈ سوریہ مندر کو مہاراجہ للت ادتیہ مکتا پیڈا نے آٹھویں صدی 725 سے 756 عیسوی کے دوران تعمیر کرایا تھا۔
کشمیر کا واحد سوریا مندر، خاص رپورٹ سوریہ مندر ہندو مذہب کے سب سے قدیم اور تاریخی مندروں میں سے ایک ہے۔ بھارت میں اس طرح کا دوسرا مندر ریاست اُڑیسہ کے کونارک میں موجود ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اس مندر کی اصل بنیاد تقریباً 370 سے 500 عیسوی کے دوران رانا ادیتیا نے ڈالی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سوریہ مندر کو بھگوان کرشنا کے بیٹے سامبا نے بنایا تھا، تاہم آٹھویں صدی کے دور میں اُس وقت کے بادشاہ للت ادتیہ نے سوریہ مندر کی ازسر نو تعمیر کی تھی۔
ہزاروں برس پرانا یہ مندر آج کھنڈرات میں تبدیل ہو گیا ہے۔ مندر کی در و دیوار اور گمبد پر تراشے ہوئے دیوی دیوتاؤں کے نقوش ابھی بھی موجود ہیں۔ ہندو فلسفے کے مطابق مارٹنڈ سوریہ مندر ایک زمانہ میں ہندؤں کے مذہبی عقیدے کا منبع ہوا کرتا تھا اور مندر کے احاطہ کے بیچوں بیچ ایک بہت بڑی عمارت کی تعمیر اس طرح کی گئی تھی کہ سورج کی روشنی دن بھر سوریا کے بُت پر رہتی تھی۔
ہندووں کا یہ بھی ماننا ہے کہ اس مندر میں ایک ایسا ہیرا تھا جس کی روشنی سے پورا علاقہ جگمگاتا تھا۔
اگرچہ اس وقت سوریہ مندر کی نگرانی محکمہ آثار قدیمہ کر رہا ہے۔ لیکن اس جگہ کو مذہبی سیاحتی مقام کے طور متعارف نہیں کیا جارہا ہے حالانکہ یہ مندر مشہور سیاحتی مقام پہلگام کی طرف جانیوالی شاہراہ کے قریب موجود ہے۔
یہ بھی پڑھیے
جہاں چاہ وہاں راہ: بزرگ خاتون کا کارنامہ، 10 برس میں قرآن کا نسخہ لکھا
کشمیر کے ثقافتی ورثے کے تحفظ کے بارے میں سنجیدہ افراد کی جانب سے سوریہ مندر کے مکمل تحفظ، تجدید و مرمت اور اسے سیاحتی نقشے پر لانے کی مانگ کی جارہی ہے۔ تاکہ اس تاریخی مندر کی افادیت اور اہمیت بھی برقرار رہے اور علاقہ میں روزگار کے وسائل بھی پیدا ہو سکیں۔ ستم ظریفی ہے کہ حکومت کی جانب سے ابھی تک اس سلسلہ میں سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے ہیں۔