چشتی بہنوں کی نگاہیں ایشین گیمز 2026 میں طلائی تمغہ پر مرکوز سرینگر (جموں و کشمیر) :سرینگر کے بمنہ علاقے سے تعلق رکھنے والی جڑواں بہنوں - آئرہ حسن چشتی اور انسا حسن چشتی - نے ریاستی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر مارشل آرٹ کی ذیلی شاخ ووشو میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہوئے اب تک 50 سے زائد تمغے اپنے نام کیے ہیں۔ جڑواں بہنوں کی متحرک جوڑی، جن کی عمر 18 ہے، اپنی غیر معمولی تکنیک اور کے ساتھ خواتین کھلاڑیوں کے لیے ایک مثال بن گئی ہے۔
آئرہ، جو اپنی بہن انسا سے عمر میں محض 15 منٹ بڑی ہے، ایک مضبوط تکنیک جبکہ اس کی بہن کھیل کے دوران اپنے جارحانہ انداز کے ساتھ میدان میں اتری ہیں۔ چشتی بہنوں کے نام سے مشہور، یہ جوڑی فی الحال ایشین گیمز 2026 میں حصہ لینے کے اپنے مقصد پر پوری توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ اپنی صلاحیتوں کو مزید نکھارنے کے لیے دن رات محنت سے مشق کر رہی ہیں۔
ووشو سے محبت
آئرہ نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ خصوصی گفتگو کے دوران بتایا: ’’ہم نے 2017 میں ووشو کو اپنایا اور ابھی بھی اس کے ساتھ ہی منسلک ہیں۔ ہمیں زمانہ طفولیت میں ہی اُس وقت انڈور اسٹیڈیم، سرینگر میں داخل کرایا گیا جب ہمارے والدین کو انٹرنیٹ کے ذریعے سرینگر میں مارشل آرٹس کی تربیت کے بارے میں معلوم ہوا۔ اس وقت ہمیں ووشو کے بارے میں کچھ بھی اندازہ نہیں تھا۔ ہمیں ووشو پسند آیا کیونکہ یہ لاتوں اور گھونسوں والا کھیل تھا۔‘‘
انسا نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ’’میں پہلے میڈلز کی تعداد میں آگے تھی لیکن اب ہم دونوں کے پاس گولڈ میڈلز برابر ہیں۔ سخت محنت ہی کامیابی کی چابی ہے، ہم نے ہمیشہ اپنا 100 فیصد کھیل کو دیا ہے۔ آئرہ کے پاس مجھ سے بہتر تکنیک ہے اور وہ مجھ سے بہتر کھلاڑی بھی ہے۔ آئرہ سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے کیونکہ وہ مجھ سے زیادہ کھل کو لیکر پرجوش ہے۔‘‘
بہنوں کا رشتہ
بہنوں کا ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ کھیل میں کے دوران بھی ایک منفرد رشتہ ہے۔ دونوں بہنوں نے بتایا کہ گھر میں ایک ساتھ رہنے اور معمولی نوک جھونک کے دوران بھی وہ ایک دوسرے پر گھونسوں اور لاتوں سے وار کرتی ہیں تاہم یہ وار محض اپنی تکنیک کو بہتر بنانے کے لیے ہوتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر یہ عائلی لمحات دونوں بہنوں کے لیے کھیل مقابلوں میں ان کی ترقی اور کامیابی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، ایک دوسرے کی خوبیوں اور کمزوریوں کے بارے میں ان کی سمجھ میں اضافہ کرتے ہیں۔
بارہویں جماعت میں زیر تعلیم چشتی بہنیں اس بات پر زور دیتی ہیں کہ ووشو ان کے لیے صرف ایک کھیل نہیں بلکہ یہ ایک جذبہ ہے جسے وہ کسی بھی صورت میں ترک نہیں کر سکتیں۔ کھیل کے ساتھ آنے والے چیلنجوں اور زخموں سے بے خوف، وہ ان دھچکوں کو مضبوط اور زیادہ لچکدار بننے اور کھیل میں نمایاں طور ابھرنے کے مواقع کے طور پر دیکھتی ہیں۔ انسا کہتی ہیں: ’’ہمارے والد ہمیشہ ہمارے لیے پیش پیش رہتے ہیں۔ وہ ہمیں مقابلوں کے لیے پنجاب، ہریانہ لے جاتے ہیں۔ میں بھانو پرتاپ (جموں سے) اور روشیبینا دیوی نورم (منی پور سے) کی طرح ووشو میں سب سے بڑی کھلاڑی بننا چاہتی ہوں۔‘‘
مزید پڑھیں:کشمیر کے تاریخی کھیل کو فروغ دینے والا نوجوان
ووشو کا سفر ایک چھوٹی عمر میں شروع ہوا جب بہنیں ٹیلی ویژن پر چینی مارشل آرٹ فلموں کے جادو سے مسحور ہوئیں تھیں۔ ووشو ایسوسی ایشن جموں و کشمیر میں ان کا اندراج کرنے کا ان کی والدہ کا فیصلہ اہم ار کارگر ثابت ہوا، اور وہ اپنے کوچ آصف حسین کی نگرانی میں بہت آگے پہنچ گئیں۔ کوچ نے ان کی صلاحیتوں اور ذہنیت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔
اپنے والدین کی غیر مشروط اور غیر متزلزل حمایت کے اہم کردار کو تسلیم کرتے ہوئے، چشتی بہنیں والدین کی حوصلہ افزائی اور قربانیوں پر ان کی شکر گزار ہیں۔ ایشین گیمز 2026 پر اپنی نظریں جمائے ہوئے، آئرہ اور انسا آئندہ ایونٹ میں طلائی تمغہ حاصل کرکے ووشو کی دنیا میں اپنا لوہا منوانا چاہتی ہیں۔