اس حوالے سے کشمیری سیاست دانوں کا ماننا ہے کہ شملہ معاہدے کے تحت پائیدار امن کے لئے کشمیر سمیت تمام مسائل ہمیشہ کے لئے حل کرنے کا وعدہ کیا گیا اور جنگ تو در کنار اس کی دھمکی سے بھی گریز کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ تاہم اب تک نہ تو کشمیر پر کوئی پیش رفت ہوئی اور نہ ہی لائن آف کنٹرول خاموش ہے، آج بھی آر پار فوجی اور عام شہری ہلاک ہو رہے ہیں۔
پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ کے صدر حکیم محمد یاسین کا کہنا تھا کہ ’’شملہ معاہدہ اس بات کا گواہ ہے کہ کشمیر ایک مسئلہ ہے۔‘‘
شمالہ معاہدے کی سالگرہ پر کشمیری سیاستدانوں کا رد عمل انکا مزید کہنا تھا کہ ’’یہ معاہدہ بھارت اور پاکستان کے درمیان امن قائم کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ آج 47 سال گزر چکے ہیں لیکن مسئلہ کشمیر وہیں ہے، حالات میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ دونوں ممالک شملہ معاہدے کی سالگرہ منا رہے ہیں اچھی بات ہے۔ تاہم کشمیری کس بات کی خوشی منائیں ان کے لیے تو کچھ کیا ہی نہیں گیا۔‘‘
وہیں نیشنل کانفرنس کے سینئر رہنما علی محمد ساگر کا ماننا ہے کہ ’’معاہدے تو بہت سارے کیے گئے لیکن زمینی سطح پر کچھ نہیں ہوا۔ آج بھی لائن آف کنٹرول کے آس پاس رہنے والے لوگ ہلاک ہو رہے ہیں، ہمارے بچے عسکریت پسندی کی راہ اختیار کر رہے ہیں۔ کشمیر مسئلے کا حل گول میز پر مذاکرات سے ہی ہوگا۔ دونوں ملکوں کو کشمیر کے پرامن حل کے لیے بات چیت کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے۔‘‘
نٹور سنگھ کے حالیہ بیان کے حوالے سے ساگر نے کہا کہ ’’معاہدے کو جیت اور ہار کے پیمانے سے دیکھنا غلط بات ہے۔ معاہدہ امن اور مسائل کے حل کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ کوئی جنگ نہیں جس میں کسی کی جیت ہو اور کسی کی ہار۔‘‘
جموں وکشمیر پیپلز مومنٹ کی جنرل سیکریٹری شہلا رشید کا کہنا ہے کہ ’’شملہ معاہدہ بنگلہ دیش جنگ کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان امن قائم کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس معاہدے میں دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت پر زور دیا گیا تھا لیکن ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ لوگ مذاکرات سے دوری بنا لیتے ہیں۔ کشمیر کا اگر کوئی حل ہے تو وہ صرف بات چیت سے ہی ممکن ہے اسی لیے مذاکرات کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔‘‘