اردو

urdu

ETV Bharat / state

Kashmiri Grass Footwear کشمیری کاریگر نے صدیوں پرانی ’پلہور’ روایت کو زندہ رکھا

پرانے زمانے میں کشمیر میں برفباری کے دوران لوگ لکڑی اور گھاس سے بنے جوتے استعمال کیا کرتے تھے تاہم لکڑے سے بنے جوتوں کو کشمیری میں کھراو جبکہ گھاس کے جوتوں کو پلہور کہا جاتا ہے۔

By

Published : Mar 4, 2023, 7:23 PM IST

کشمیری کاریگر نے صدیوں پرانی’پلہور’ روایت کوزندہ رکھا
کشمیری کاریگر نے صدیوں پرانی’پلہور’ روایت کوزندہ رکھا

کشمیری کاریگر نے صدیوں پرانی’پلہور’ روایت کوزندہ رکھا

سرینگر:جب چمڑے اور پلاسٹک کے جوتے دستیاب نہیں تھے یا صرف آسودہ حال لوگ ہی ایسے جوتے پہننے کی استطاعت رکھتے تھے تو اس زمانے میں عام لوگ چلنے پھرنے کے دوران کیسے اپنے پاؤں کو محفوظ رکھتے تھے۔ خاص طور پر کشمیر جیسے علاقے میں جہاں موسم سرما میں برف پر چلنے کی ضرورت بھی درپیش آتی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ سخت سردی اور برفباری میں بھی کشمیری لوگ چلتے پھرتے تھے اور ان کے پاس چمڑے اور پلاسٹک کے بوٹ بھی نہیں ہوتے تھے۔ اصل میں کشمیر کے لوگوں نے مقامی طور لکڑی اور گھاس سے بنے جوتے ایجاد کیے تھے جنہیں وہ استعمال میں لاتے تھے۔ لکڑے کے بنے جاتوں کو کھراو اور گھاس کے جوتوں کو پلہور کہا جاتا تھا۔

محمد یوسف بٹ، سرینگر کی مضافات میں واقع ضلع پلوامہ کے زنتراگ گاؤں کے رہنے والے ہیں ۔ یہ گاؤں پانپور علاقے میں واقع ہے۔ بٹ نے جموں و کشمیر کے محکمہ دستکاری کی مدد سے گھاس پھوس سے بننے والی روایتی گھریلو استعمال کی چیزوں کو ازسرنو زندہ کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ وہ اپنے گھر میں پلہور بناتے ہیں۔ پلپور کے علاوہ وہ کئی دیگر اشیاء جیسے چٹائی، کپ کے لیے کور اور ٹوکریاں بنانے کے لیے گھاس کے تنکوں کا استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ فن اپنے آباؤ اجداد سے سیکھا اور اس روایتی ثقافت کو زندہ رکھنے کی کوششوں پر محکمہ کا شکریہ ادا کیا۔ محمد یوسف بٹ کا کہنا ہے کہ وہ دھان کے گھاس سے چٹائیاں بناتے ہیں۔ ان کے مطابق جب فرنشنگ کیلئے جدید مصنوعات دستیاب نہیں تھیں تو لوگ گھروں میں گھاس کی انہی چٹائیوں پر بیٹھتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ایک گول چٹائی کو "چانگج" کہتے ہیں جبکہ مستطیل اور بڑی چٹائیاں "پتج" کہلاتی تھیں۔

مزید پڑھیں:Traditional Waguw in Kashmir: کشمیر کی ایک روایتی چٹائی ’وگو‘ کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش

محکمہ صنعت و حرفت کے ڈائرکٹر محمود شاہ کا کہنا ہے کہ 2020 میں متعارف کی گئی صنعتی پالیسی میں ان روایتی صنعتوں کو فروغ دینے کی بات کی گئی ہے جو ناپید ہونے کے قریب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسی ختم ہورہی صنعتوں کو دوبارہ زندہ کرنے کیلئے خارخانہ دار اسکیم متعارف کی گئی۔انہوں نے کہا کہ اسکول آف ڈیزائن میں اب یہ چیزیں بن رہی ہیں۔ اس کے علاوہ جھیل ڈل اور کئی دیگر علاقہ جات میں بھی کارخانے چلائے جارہے ہیں، جو کشمیر کی ناپید ہوئی صنعتوں کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہوگی۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details