اگرچہ انتظامیہ کی جانب سے سیاحوں اور یاتروں کو کشمیر چھوڑنے کے متعلق جاری ایڈوائزی کو واپس لیا گیا ہے، تاہم اس کے باوجود بھی سیاح کشمیر آنے سے گریز کر رہے ہیں۔
کشمیر جانے والے ملکی و غیر ملکی سیاحوں کی تعداد میں کافی کمی محکمہ سیاحت کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ چھ برسوں کے مقابلے میں رواں برس وادی سیاحوں کی آمد سب سے کم ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2014 میں اگست سے نومبر کے دوران 1,54,873 سیاح کشمیر آئے تھے جبکہ سنہ 2015 میں 2,68,530، سنہ 2016 میں 1,26,464، سنہ 2017 میں 5,45,601 اور سنہ 2018 میں 2,67,955 سیاحوں نے وادی کشمیر کا رخ کیا تھا۔
سال 2019 میں اگست سے نومبر کے آخر تک صرف 36,105 سیاح کشمیر آئے تھے، اگست ماہ میں 10,130 ستمبر میں 4,562 اکتوبر میں 9,327 اور نومبر میں 12,086 سیاحوں نے وادی کا رُخ کیا ہے۔
محکمہ سیاحت کے ایک اعلیٰ افسر نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ انتظامیہ سیاحوں کو کشمیر کی طرف راغب کرنے کی کوششیں تیز کر دی ہے انہوں نے امید ظاہر کی کہ جلد ہی سیاح ہجوم در ہجوم واپس وادی کا رخ کریں گے۔
وہیں سیاحتی شعبے سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کی بحالی کے بغیرسیاحوں کو دوبارہ راغب کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا۔ ہزاروں ڈرائیورز کی روزی روٹی سیاحت کے شعبے سے جُڑی ہوئی ہے، ان کا کہنا ہے کہ آمدنی کا کوئی متبادل انتظام نہ ہونے کی وجہ سے وہ کافی پریشان ہیں۔
ڈل جھیل کے کنارے پر واقع ٹورسٹ ٹیکسی اسٹینڈ سے وابستہ ایک مقامی ڈرائیور منظور احمد ڈار نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 4اگست سے اب تک گاڑیاں بالکل خالی پڑی ہیں، اور سیاحت کے اعتبار سے کاروبار بالکل صفر کے برابر ہیں۔
ڈار نے کہا کہ اس ٹیکسی اسٹینڈ میں 250 کے قریب گاڑیاں سیاحوں کو ایک مقام سے دوسرے مقام لانے لے لے جانے میں مصروف رہتی تھیں، تاہم پچھلے 5 ماہ سے کام مکمل طور ٹھپ پڑا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مختلف بینکوں سے قرض لیکر گاڑیاں خرید لی گئی ہیں اور پچھلے 5 ماہ سے وہ بینکوں کا قرضہ کا قسط نہیں بھر پائے ہیں۔
واضح رہے کہ 5 اگست سے جاری غیر یقینی صورتحال سے کشمیر کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے مطابق گزشتہ 5 ماہ کے دوران تقریباً 15 ہزار کروڑ کا نقصان ہوا ہے۔