اردو

urdu

ETV Bharat / state

Kashmir Walla Winds up Office: میڈیا ہاؤس ’دی کشمیر والا‘ نے آفس خالی کیا

سرینگر کے راج باغ علاقے میں واقع میڈیا ہاؤس ’’دی کشمیر والا‘‘ کا دفتر خالی کرتے وقت ادارے سے وابستہ عملہ کی آنکھیں نم تھیں۔

میڈیا ہاؤس ’دی کشمیر والا‘ نے آفس خالی کیا
میڈیا ہاؤس ’دی کشمیر والا‘ نے آفس خالی کیا

By

Published : Aug 21, 2023, 7:07 PM IST

میڈیا ہاؤس ’دی کشمیر والا‘ نے آفس خالی کیا

سرینگر (جموں کشمیر) :آن لائن نیوز پیچ ’’دی کشمیر والا‘‘ نے گزشتہ روز دعویٰ کیا تھا کہ الیکٹرانکس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت نے آئی ٹی ایکٹ 2000 کے تحت ان کی ویب سائٹ اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو بلاک کر دیا ہے۔ وہیں پیر کے روز میڈیا ایجنسی نے سرینگر کے راج باغ علاقہ میں واقع اپنا دفتر خالی کیا۔ سنہ 2011 میں فہد شاہ نامی ایک کشمیری صحافی نے ’’دی کشمیر والا‘‘ کے نام سے ایک بلاگ شروع کیا تھا اور بعد میں اس کا اندراج کر ایک نیوز ویب سائٹ شروع کی تھی۔ شاہ بلاگ شروع کرنے سے قبل کشمیر کے معروف انگریزی اخبار میں بطور انٹرن رپورٹر بھی کام کر چکے تھے۔

پیز کے روز کشمیری والا کے دفتر کو خالی کرتے وقت ادارے کے ملازمین کی آنکھیں نم تھیں اور اپنے میڈیا ہاؤس کے ساتھ وابستہ اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے نظر آئے۔ میڈیا ادارے کے ملازمین دفتر کے ساتھ وابستہ یادیں اپنے کیمروں میں قید کرتے نظر آئے اور کچھ اپنے مستقبل کو لے کر پریشان تھے۔ اگرچہ صحافیوں سے بات کرنے سے سبھی ملازمین نے گریز کیا تاہم اُن کی خاموشی کافی کچھ بیان کر رہی تھی۔

فہد شاہ اس وقت جیل میں ہیں، وہیں نیوز پورٹل کے عبوری ایڈیٹر یش راج شرما گزشتہ روز جاری کیے گئے دی کشمیر والا کے بیان پر بار بار نظر ڈالتے نظر آئے۔ پرانے اخبار، پرنٹر، بورڈ اور تصویروں کو ایک ڈبے میں بند کیا جا رہا تھا لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کہ آگے کیا کرنا ہے۔ کیا لوگ دی کشمیر والا ویب سائٹ پر دوبارہ خبریں اور تجزیئے پڑھ پائیں گے؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔

جہاں گزشتہ روز پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی سربراہ محبوبہ مفتی نے ’’کشمیر والا‘‘ پر عائد پابندی پر اپنا بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’شرم کی بات ہے، اقتدار کے سامنے سچ بولنے کی ہمت کرنے والے چند پورٹلز میں سے ایک کو خاموش کر دیا گیا ہے۔ فہد شاہ جموں و کشمیر میں زمینی حقائق کو اجاگر کرنے والی اپنی سچائی پر مبنی رپورٹنگ کی وجہ سے قید میں ہے۔ مرکزی حکومت کے بیانیے اور پروپیگنڈے کو صرف گودی میڈیا کو کام کرنے اور پھلنے پھولنے کی اجازت ہے۔‘‘ وہیں آج انہوں نے ایک بار پھر ایک پریس کانفرنس کے دوران کشمیر والا پر ہوئی کاروائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا: ’’صرف کشمیر والا یا فہد شاہ کی ہی بات نہیں ہے، جتنے بھی صحافی ہیں، یا میڈیا ادارے ہیں اُن کے اشتہارات بند ہیں، اُن کو گھروں سے نکالا جا رہا ہے۔ یہاں صرف ایک میڈیا مشیر ہے ایل جی کا، جو ایک پرائیویٹ پرسن ہے، اس کی اتھارٹی ہے کس کو (سرکاری) اشتہار دینا ہے اور کس کو نہیں۔ اخبار میں کس کی خبر چھپنی چاہئے کس کی نہیں۔ یہ آئین کی بات کرتے ہیں اور خود ہی آئین کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ یہاں کوئی قانون ہی نہیں چلتا ہے۔‘‘

مزید پڑھیں:SIA Questioned Kashmir Wala's Interim Editor: ایس آئی اے نے ’دی کشمیر والا‘ کے عبوری ایڈیٹر سے پوچھ تاچھ کی

گزشتہ روز ’’دی کشمیر والا‘‘ نے اپنا بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’جب ہم نے ہفتے کی صبح اپنے سرور فراہم کرنے والے سے یہ پوچھنے کے لیے رابطہ کیا کہ thekashmirwalla.com کیوں ناقابل رسائی ہے، تو انہوں نے ہمیں بتایا کہ ہماری ویب سائٹ کو بھارت میں الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت نے آئی ٹی ایکٹ 2000 کے تحت بلاک کر دیا ہے۔ ہمیں پتہ چلا کہ ہمارا فیس بک پیج اور ٹوئٹر (ایکس) اکاؤنٹ بھی بند کیا گیا ہے۔‘‘ بیان میں کہا گیا تھا کہ ’’نیوز پورٹل اس بات سے واقف نہیں کہ بھارت میں اس کی ویب سائٹ کو کیوں بلاک کیا گیا ہے۔ اس کے فیس بک پیج کو کیوں ہٹا دیا گیا ہے۔ اور اس کا ٹویٹر اکاؤنٹ کیوں روک دیا گیا ہے۔ ہمیں کوئی نوٹس نہیں دی گئی ہے اور نہ ہی ان کارروائیوں کے بارے میں کوئی سرکاری حکم ہے جو اب تک عوامی ڈومین میں ہے۔‘‘

پورٹل کے ایک ملازم نے بتایا کہ ہمارے دفتر کے مالک مکان نے ہمیں بے دخلی کا نوٹس بھیجا تھا اور آج ہم (آفس) خالی کر رہے ہیں۔ نیوز پورٹل کے بانی اور ایڈیٹر فہد شاہ کو فروری 2022 میں پلوامہ میں انکاؤنٹر کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کرنے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ بعد میں اس پر غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ فی الحال شاہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ کشمیر والا سے وابستہ ایک ملازم کا مزید کہنا تھا کہ ’’ہم ہی جانتے ہیں کہ گزشتہ 18 ماہ ہم نے کیسے کاٹے ہیں۔ یہ عرصہ ہمارے لئے ایک ڈراؤنے خواب جیسا تھا، ہمارا ایڈیٹر جیل میں ہے، ہمارے اسٹاف کےساتھ لگاتار ہراسانی ہوتی رہی ہے اور اب دفتر بھی بند ہو گیا۔ ہمارے دفتر پر کئی بار پولیس کے چھاپے پڑے ہیں۔ ہمارے بیشتر الیکٹرانک آلات ضبط کیے گئے ہیں۔ ہمارے عبوری ایڈیٹر کو بھی کئی بار سمن جاری کیا گیا ہے۔ (اب آگے) کیا کرنا ہے، کہاں جانا ہے؟ کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔ ‘‘

ABOUT THE AUTHOR

...view details