پروفیسر سوز نے کہا کہ ان آبی ذخائر کو آج میں نے قریب سے دیکھا اور میں بہت مایوس ہوا کہ اگر کشمیر کے لوگ اس بیش قیمت اثاثے کی حفاظت نہیں کریں گے تو وہ اس بہت ہی قیمتی سرمائے کو کھو بیٹھیں گے اور آنے والی نسلوں کے لئے حیرت اور افسوس کے بغیر کچھ نہیں چھوڑا جائےگا!
انہوں نے بدھ کے روز ایک بیان میں کہا: 'آج جب میں گل سر، خوشحال سر، آنچار اور براری نمبل دیکھنے گیا تو مجھے یہ دیکھ کر انتہائی دکھ ہوا کہ یہ کسی زمانے کی خوبصورت جھیلیں سکڑ گئی ہیں اور دم توڑ رہی ہیں!'۔
پروفیسر سوز نے کہا: 'دراصل ہمارے درمیان ایسے ناعاقبت اندیش، لالچی اور خود غرض لوگ موجود ہیں، جو اپنی دسست درازی، لالچ اور حرص و ہوا میں ہمارے آبی ذخائر خصوصاً ان جھیلوں کو فنا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ مجھے یہ بات بھی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتی ہے کہ ان دست دراز خود غرض عناصر کو ہمارے سماجی نظام میں ہر قسم کی امداد میسر ہے'۔
ان کا مزید کہنا تھا: 'خصوصاً ان عناصر سے جو رشوت خور اور قانون کا احترام کرنے والے نہیں ہیں۔ مجھے ناجائز تجاوزات کا منظر دیکھ کر بہت بڑا صدمہ ہوا ہے'۔
پروفیسر سوز نے کہا کہ لوگوں کو یہ بات جان کر بہت افسوس اور حیرت ہوگی کہ اب آپ خوبصورت آنچار جھیل کو دیکھ نہیں سکتے کیونکہ اس کے سارے کنارے ناجائز تعمیرات سے ڈھکے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا: 'اب اس فرسودہ اور عوام دشمن منظر کو قابو میں لاکر اپنی جھیلوں اور دیگر آبی ذخائر کو صرف ایک ہی چیز بچا سکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم ایک مضبوط عوامی تحریک چلا کر لوگوں کو خبردار کریں کہ ہمارا قومی اثاثہ خطرے میں آ گیا ہے اور کشمیر میں بیداری کے لئے ایک وسیع تحریک عوام کے سامنے آئے گی'۔
ان کا مزید کہنا تھا: 'اس روح فرسا دورے کے دوران صرف ایک روشنی کی کرن مجھے نظر آئی کہ جہاں بھی میں گیا، وہاں بہت سارے لوگ جمع ہو گئے اور مجھے یقین دلایا کہ وہ اس عوامی تحریک میں شامل ہو جائیں گے جس کی میں اگلے دنوں میں کوشش کروں گا'۔