سرینگر (جموں و کشمیر): سنہ 2014 کے ستمبر مہینے میں آئے تباہ کن سیلاب میں جہاں جموں و کشمیر میں 287 افراد ہلاک ہوئے وہیں تقریباً 20 لاکھ لوگ شدید طور پر متاثر ہوئے جس کی وجہ سے گرمائی دارالحکومت سرینگر میں کافی روز تک زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی تھی۔ اگرچہ مرکزی سرکار، جموں و کشمیر حکومت کے علاوہ دیگر ریاستوں کی انتظامیہ نے بچاؤ اور بازآبادکاری کے لیے آگے آکر مہم چلائی تاہم نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ڈیزاسٹر مینجمنٹ (این آئی ڈی ایم) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق سیلاب سے ہوئے نقصانات کا اندازہ لگانے میں کوتاہی برتی گئی ہے۔
سیلاب سے ہوئی تباہی کے تقریباً نو برس بعد این آئی ڈی ایم کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ ’’کشمیر سیلاب 2014: ریکوری ٹو ریزیلیئنس (Kashmir floods 2014 Recovery to Resilience) " میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’’وادی کشمیر کو ستمبر 2014 میں مسلسل بارشوں اور بادل پھٹنے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے بنیادی ڈھانچے کی مقامی سطح پر تباہی ہوئی اور معمولات زندگی، کمیونٹیز اور مواصلات وغیرہ پر شدید اثرات مرتب ہوئے۔‘‘
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’سیلاب سے ہوئی تباہی کے بعد سرکار کی جانب سے کئی فوری اور طویل مدتی اقدامات اٹھائے گئے۔ تاہم ان اقدامات میں نقصانات کا پورا تخمینہ نہیں کیا گیا تھا، جو بدقسمتی سے چھ اضلاع (سرینگر، بڈگام، اننت ناگ، جموں، پونچھ اور ادھم پور) میں سے صرف تین میں مکمل ہوئے جبکہ دیگر تین اضلاع میں صورتحال کا اندازہ پوری طرح سے نہیں لگایا گیا تھا۔‘‘ رپورٹ کے مطابق، اس (نامکمل تخمینہ) کے نتیجے میں نقصان کی جزوی یا غلط تشخیص کے ساتھ ساتھ (ضروری) سامان کے بندوبست اور خریداری میں تاخیر ہوئی جس نے متاثرہ افراد کی بروقت امداد کی فراہمی پر منفی اثرات مرتب کیے۔