سرینگر: کنٹریکچول اساتذہ کو کام سے روکنے کا الزام
کنٹریچول ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ کنٹریچول بنیاد پر گزشتہ بیس برس سے مخلتف کالجوں میں اپنی خدمات انجام دے رہے اساتذہ کے مستقبل کو تاریک بنایا جارہا ہے۔
سینکڑوں کنٹریچول اساتذہ کو کالجوں میں کام کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے
ایسوسی ایشن نے سرینگر میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ تعلیمی سرگرمیاں شروع ہونے کے باوجود کالجوں میں کام کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے اور ڈائریکٹر کالجز کی زبانی ہدایات پر کالج کے پرنسپل صاحبان اندر داخل ہونے کی بھی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔
پریس کانفرنس کے دوران ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر فیاض وانی نے کہا کہ اگرچہ 2010 کے سپشل ایکٹ کے تحت وہ اب تک کالجوں میں پڑھاتے آئے ہیں لیکن اب دفعہ 370کے خاتمے کے بعد ایک نئے آرڈر کے تحت ہمیں محتاج بنایا جارہا ہے اور ڈائریکٹوریٹ کالجز کی جانب سے یہ کہا جارہا ہے کہ جب کالجوں میں آپ کی ضرورت پڑھے گی تب آپ کو بلایا جائے گا وہیں اب فی لکیچر کے حساب سے اجرت دی جائے گی۔ایسوسی ایشن کے صدر نے کہا کہ اس کے طرح کے امرانہ احکامات سے اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں پریشانی میں مبتلا ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ پرانے آرڈر کے مطابق انہیں باضابط طور تمام سہولیات دی جارہی تھیں ۔لیکن اب عدالت عالیہ کے احکامات کو بالائے طاق رکھکر ڈیکٹیرشپ نظام سے شب وخون مارا جارہا ہے۔انہوں نے کہا مستقلی اود دیگر معاملات کے حوالے سے جموں وکشمیر کے 2300 کنٹریچول اساتذہ کا کیس عدالت عالیہ میں زیر غور ہے لیکن اس کے باوجود نئے احکامات سے انہیں مزید اضطراب میں مبتلا کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا ڈائر یکٹر کالجز عدالت میں جھوٹ بول رہے ہیں کہ مزکورہ اساتذہ کی پوزیشن برقرار رکھی گئی ہے۔جبکہ موجودہ صورتحال اس کے بر عکس ہے ۔انہوں نے اعلی تعلیمی محکمہ کے زمہ داران اور گورنر انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ اس حساس مسلے پر غور کریں تاکہ اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو تاریک ہونے سے بچایا جاسکے۔