پانچ ماہ سے انٹرنیٹ خدمات مسلسل معطلی لوگوں بالخصوص صحافیوں، طلبا اور تاجروں کے لیے سوہان روح بن گئی ہے۔
صحافیوں کو پیشہ ورانہ کام کاج کی انجام دہی کے لیے محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کے ایک چھوٹے کمرے میں قائم میڈیا سینٹر کا روزانہ بنیادوں پر رخ کرنا پڑتا ہے۔
کشمیر: صحافیوں کے 5 ماہ کیسے گزرے گزشتہ 5 ماہ سے صحافیوں کو درپیش مسائل پر بات چیت کرنے کے لیے آج سرینگر کے ایوان صحافت میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا۔
اس موقع پر وادی کے سینیئر صحافی ریاض مصرور نے کہا کہ 5 اگست سے کشمیر میں کچھ نہیں بدلا ہے ۔انٹرنیٹ پر پابندی سے صحافیوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'میڈیا سینٹر قائم کرنے سے قبل ہمیں اسٹوری پن ڈرائیو لے کر ائیرپورٹ لے جاتے تھے اور وہاں سے اپنے اپنے میڈیا اداروں کو بھیجنا پڑتا تھا، جس کے بعد ہی اسٹوری شائع ہوتی تھی۔
ریاض مصرور نے کہا کہ 300 سے زائد صحافیوں کے لیے ایک چھوٹا سا کمرہ فراہم کیا گیا ہے جہاں پر صرف 12 سے 15 کمپیوٹرز ہیں جو ناکافی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ پر پابندی سے اسٹوری کے معیار میں اثر پڑا ہے، کیونکہ میڈیا سینٹر پر ایک صحافی کو 15 منٹ سے 20 منٹ تک انٹرنیٹ استعمال کرنے کی اجازت ہے۔
شفاعت فاروق نامی ایک اور صحافی نے کہا کہ صحافیوں کے لیے جو صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ پانچ اگست سے صورتحال جوں کی توں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ محکمہ اطلاعات عامہ میں رکھی ناکافی انٹرنیت سہولیات سے پہلے ہی ذہنی کوفت کا شکار ہونا پڑتا ہے۔
شفاعت فاروق نے کہا کہ میڈیا سنٹر میں صحافی اب اپنے میڈیا اداروں کے لیے ہر روز خبر بنانے سے پہلے ایک دوسرے سے ہی پوچھتے اور مشورہ کرتے ہیں کہ آیا آج کس خبر پر کام کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے انتظامیہ سے اپیل کی کہ جلد از جلد انٹرنیٹ بحال کیا جائے۔
ماجد جہانگیر ایک بین الاقوامی میڈیا سے وابستہ ہیں، کہتے ہیں کہ کشمیر میں صحافی کا وقار ختم کر دیا گیا ہے ۔ ماجد جہانگیر نے کہا کہ میں نے آج تک میڈیا سینٹر کا استعمال نہیں کیا ہے۔
انہوں نے مرکزی حکومت سے سوالیہ انداز میں کہا 'اگر دہلی اور اسام میں 2 گھنٹوں کے لیے انٹرنیٹ بند نہیں رکھ سکتے تو کیا آپ کیسے کشمیر کے صحافیوں کے لیے 5 ماہ کے بعد بھی انٹرنیٹ بحال نہیں کر سکتے ہو۔ کیا کشمیر کے صحافی 5 اگست کے بعد بھارتی شہری نہیں رہے'۔