جموں وکشمیر انتظامیہ نے 2020 میڈیا پالیسی کو مرتب کیا اور اس طریقہ کار کے تحت میڈیا کو درپیش معاملات مقرره مدت کے دوران صاف و شفاف طریقے سے حل کرنے میں مدد ملنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ حکومت نے کہا ہے کہ اس پالیسی کا مقصد فیک نیوز (جعلی خبریں) اور غلط اطلاعات کی کوششوں پر روک لگانا ہے۔ تاہم اس میڈیا پالیسی کو حکومت نے ابھی تک منظر عام پر نہیں لایا ہے۔ ادھر مقامی صحافیوں نے نئی میڈیا پولیسی کی سخت نکتہ چینی کی ہے۔
نئی میڈیا پالیسی پر جموں و کشمیر کے صحافی برہم
نئی میڈیا پالیسی کے تحت حکومت اخبار، ٹی وی چینلز یا دیگر میڈیا میں شائع یا نشر ہونے والے مواد کی نگرانی کرے گی اور سرکاری حکام یہ فیصلہ کریں گے کہ فرضی خبر کون سی ہے اور سماج مخالف یا پھر ملک مخالف رپورٹنگ کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح سے بالی ووڈ میں فلم کو سنسر بورڈ کے سامنے لایا جاتا ہے تو وہاں پر فلم کے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کو سامنے رکھا جاتا ہے اور کس سین کو کاٹنے کی ضرورت ہوتی ہے اس پر مل کر وہاں مشورہ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ میڈیا پالیسی کو مرتب کرنے سے قبل جموں کشمیر کے صحافیوں کی نمائندگی کو یقینی بنائے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔'
ایڈوکیٹ ساہل کوہلی جو کہ ایک ہفتہ وار رسالہ کے مدیر ہیں کا کہنا ہے کہ 'کافی وقت سے میڈیا پالیسی کا انتظار تھا کیونکہ اب سوشل میڈیا سے متعدد میڈیا ادارے سامنے آرہے ہیں اس پر نظر رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ تاہم جس طرح سے حکومت نے اس میڈیا پالیسی میں صحافیوں کو حکومت سطح پر انعامات دینے کی بات کی ہیں وہ سراسر غلط ہیں۔' انہوں نے کہا 'اس طرح ایک صحافی کے کام کرنے پر سوالیہ نشان لگے گا اور ایکریڈیشن حاصل کرنے کے لئے پولیسں ویریفیکیشن حاصل کرنے میں میڈیا کی یکسانیت پر اثر پڑے گا۔'
واضح رہے حکومت نے جموں و کشمیر میں میڈیا کے تعلق سے ایک نئی پالیسی نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے جس میں کسی بھی صحافی کے ایکریڈیشن کے لیے اس کا سکیورٹی چیک لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اخبار کے رجسٹریشن اور حکومتی اشتہارات تک رسائی کے لیے مالکان، ایڈیٹرز اور دیگر ملازمین کے بیک گراؤنڈ کو چیک کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔