سرینگر میں مقیم ایک صحافی نے سائبر پولیس کی جانب سے ان کے ساتھ زیادتی کا انکشاف کیا ہے۔ عاقب جاوید نامی صحافی نے آرٹیکل 14 نامی نیوز پورٹل پر اپنی روداد بیان کرتے ہوئے سائبر پولیس عہدیدار پر الزامات عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں ان کی ایک اسٹوری کے متعلق سائبر پولیس میں طلب کیا گیا تھا تاہم جب وہ وہاں پہنچے تو اس دوران انہیں تھپڑ مارا گیا اور انہیں گالیاں دی گئی۔
خیال رہے کہ عاقب کو ان کی ایک اسٹوری کے لئے سائبر پولیس نے طلب کیا تھا جو کچھ دن قبل ایک آن لائن نیوز پورٹل پر شائع ہوئی تھی۔
صحافی عاقب جاوید نے بتایا کہ 18 ستمبر کو شام 5 بجے کے قریب انھیں سائبر پولیس اسٹیشن کا فون آیا۔ انہوں نے کہا کہ "فون کرنے والے نے مجھے ایک خبر کے متعلق دوسرے دن سائبر پولیس اسٹیشن میں حاضر ہونے کے لئے کہا جو میں نے آرٹیکل 14 کے لئے لکھی تھی۔ سمن تحریری نہیں بلکہ زبانی انہیں وہاں طلب کیا گیا تھا"
انہوں نے مزید لکھا کہ اگلے دن وہ کشمیر پریس کلب (کے پی سی) کے کچھ ساتھیوں کے ساتھ سائبر پولیس اسٹیشن گئے جہاں انہوں نے ان عہدیداروں سے ملاقات کی جنہوں نے انہیں فون کیا تھا۔ انہوں نے لکھا کہ وہ صبح 11 بجکر 15 منٹ پر سائبر پولیس اسٹیشن گئے اور انہیں شام تقریباً 4 بجے واپس جانے کی اجازت دی گئی۔
سرینگر: صحافی نے سائبر پولیس پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا - news of srinagar
پورٹل پر صحافی نے لکھا کہ انہیں ان کی ایک اسٹوری کے لئے سائبر پولیس نے تھپڑ مارا اور گالیاں دیں۔
عاقب نے مزید لکھا کہ انہیں سائبر پولیس میں پہلے کسی اہلکار نے دو مرتبہ تھپڑ مارا تاہم ان کے چہرے پہ ماسک لگا تھا۔ انہوں نے مزید لکھا کہ جب بعد میں وہ ایس پی سائبر کے پاس پہنچے تو انہوں نے مجھے ماں اور بہن کی گالیاں دی۔ عاقب نے لکھا ہے انہوں نے وہاں پولیس عہدیدار سے منت و سماجت کی کہ انہوں نے جو اسٹوری لکھی ہے وہ حقیقت پر مبنی ہیں تاہم عہدیدار نے اسے گمراہ کن قرار دیا۔
دریں اثنا پولیس کی جانب سے گزشتہ روز ایک بیان جاری کیا گیا جس میں مذکورہ صحافی کی کہانی کو جو آرٹیکل 14 نامی آن لائن نیوز پورٹل پر شائع ہوئی ہےکو ایک گمراہ کن اور بے بنیاد قرار دیا گیا ہے۔
پولیس بیان میں کہا گیا ہے کہ “کہانی میں صحافی نے ایک گمراہ کن تصویر کو غلط تفصیل کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اس کے علاوہ صحافی نے سائبر پولیس اسٹیشن کشمیر زون سرینگر کے نام سے ایک عمارت کی تصویر شائع کی جو غلط ہے۔ پولیس نے کہا ہے کہ اس معاملے کی حقیقت یہ ہے کہ سائبر پولیس اسٹیشن کو اکتوبر 2019 میں پولیس اسٹیشن کے طور پر منتخب کیا گیا ہے اور یہ پولیس اسٹیشن شیرگڑی تھانہ کی عمارت کے بالائی منزل میں قائم کیا گیا ہے تاہم مذکورہ صحافی نے سائبر پولیس اسٹیشن کے کام اور اس کے قیام کے بارے میں عام لوگوں کو گمراہ کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے متعلق سائبر پولیس تھانہ کشمیر میں صحافی کو طلب کیا گیا تھا۔ بیان میں کہا گیا کہ صحافی نے اعتراف کیا کہ مضمون میں شائع ہونے والی تصویر غلط ہے اور اس نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ سائبر پولیس اسٹیشن کشمیر کے کام اور اس کے قیام کے بارے میں انہیں کوئی معلومات نہیں ہے۔ مزید یہ کہ صحافی نے یہ بھی اعتراف کیا کہ وہ کبھی سائبر پولیس اسٹیشن نہیں گیا ہے اور نہ ہی شیرگڑی کمپلیکس میں سائبر تھانہ کشمیر کے قیام کے بارے میں معلومات رکھتا ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ صحافی نے غلطیوں کا اعتراف کیا اور ان کے ہمراہ ان کے ساتھیوں نے بھی ان کی غلط بیانی پر افسوس کا اظہار کیا۔ سائبر پولیس بیان میں عاقب جاوید کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو گمراہ کن اور بے بنیاد قرار دیا گیا۔