سرینگر: مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں موسم گرما کے آمد کے ساتھ ہی خانہ بدوش بکروال قبیلوں کا سفر اپنے خاندانوں، بستروں اور مویشیوں کے ساتھ وادی کے پہاڑی علاقوں کی طرف شروع ہو جاتا ہے۔ موسم سرما سے قبل ہی یہ قبیلہ دوبارہ جموں صوبے کے میدانی علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ یہ روایتی سفر کئی صدیوں سے چلتا آرہا ہے، تاہم ان خانہ بدوشوں کی مشکلات کا کبھی ازالہ نہیں کیا گیا۔ Migration of nomadic tribes
انتظامیہ کے دعوؤں کی قلعی اس وقت کھلتی ہے جب خانہ بدوشوں کے مویشی سڑک حادثے میں ہلاک ہوتے ہیں یا ان کا کوئی فرد سخت حالات کی چکی میں پس کر انتقال کر جاتا ہے۔ برف باری، بارش یا پھر ژالہ باری ہر موسم میں یہ قبیلے اپنی عارضی منزل کی جانب گامزن رہتے ہیں۔ یہ قبیلہ بھیڑ بکریاں پال کر اور لوگوں خاص طور پر سیاحوں کا سامان ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچا کر گزر بسر کرتا ہے۔ Nomads lack basic amenities
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے اس قبیلہ کے لوگوں نے دعویٰ کیا کہ ہمارے دیہات میں بنیادی سہولیات نہیں ہیں۔ آمدنی کے وسائل نہیں ہیں، اس لیے خانہ بدوشوں کی زندگی بسر کر کے اپنے کنبے کے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرتے ہیں۔ Poverty among nomads
راجوری کے ایک دیہات سے پیدل چل کر آئے محمد اسلم کھٹانہ کا کہنا تھا کہ "ہم بچپن سے ہی خانہ بدوش ہیں۔ راستے میں انتظامیہ کی جانب سے سہولیات کا انتظام نہیں کیا گیا ہے، اور نہ موبائل اسکول ہیں اور نہ طبی سہولیات میسر ہیں، جس کی وجہ سے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔" اُن کا مزید کہنا تھا کہ "قومی شہر پر مٹی یا برف کے تودے گرنے سے یا پھر حادثوں کی وجہ سے ہمارے مویشی ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم بیمار ہو جائیں تو کہاں جائیں سمجھ نہیں آتا۔"