نیشنل کانفرنس کے صدر اور لوک سبھا ممبر فاروق عبد اللہ، رکن پارلیمان حسنین مسعودی اور محمد اکبر لون نے ریٹائرڈ جسٹس رنجنا پرکاش دیسائی سے ایک خط میں یہ اپیل کی ہے کہ جموں و کشمیر میں اسمبلی حلقوں کی حدبندی کے عمل کو روک دیا جائے کیونکہ یہ معاملہ ابھی عدالت عظمیٰ میں ہے۔
مرکزی علاقے جموں و کشمیر میں ڈیلمیٹیشن ایکٹ 2002 کی سیکشن تین کے تحت مرکزی وزارت قانون و انصاف کی جانب سے چھ مارچ 2020 کو ایک ڈیلمیٹیشن کمیشن تشکیل دیا گیا ہے جس کے تحت خطہ میں حلقوں کی حدبندی دوبارہ سے کی جائے گی۔
وزارت کی جانب سے یہ واضح کیا گیا ہے کہ کمشن کے چیئرپرسن کی مدت ایک سال تک ہے اور موجودہ چیئرپرسن رنجنا پرکاش دیسائی 5 مارچ 2021 تک اس عہدے پر فائز رہیں گی۔
این سی کی جانب سے خط میں لکھا گیا ہے کہ جموں و کشمیر ریکوگنیشن ایکٹ 2019 آئین کی خلاف ورزی ہے اور اس لیے اس ایکٹ کو سپریم کورٹ میں چیلینج بھی کیا گیا ہے۔
ڈیلیمیٹیشن کمیشن کی چیئرپرسن ریٹائیرڈ جسٹس رنجنا پرکاش دیسائی کے علاوہ ایلیکشن کمشنر سشیل چندرا اور جموں و کشمیر کے اسٹیٹ الیکشن کمشنر کے کے شرما اس کمشن کے ممبر ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
غیرملکی سفارتکار جموں و کشمیر کے دورے پر، پَل پَل کے اپڈیٹس
واضح رہے کہ کل یعنی 18 فروری کو دہلی میں ڈیلمیٹیشن کمیشن ممبرز کی چیئرپرسن رنجنا پرکاش دیسائی کی زیر صدارت ایک میٹنگ منعقد ہوگی جس میں جموں و کشمیر میں اسمبلی حلقوں کی دوبارہ حد بندی کے سلسلے میں تبادلۂ خیال کیا جائے گا۔
جموں و کشمیر میں پہلے 111 اسمبلی سیٹیں تھیں، جن میں سے 24 آج کے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں تھی۔
اسمبلی حلقوں کی حد بندی آخری بار سنہ 1994-95 میں صدر مملکت کے دور میں ہوئی تھی جب اس وقت کے ریاستی اسمبلی کی نشستیں 76 سے بڑھا کر 87 کی گئی تھی اور اب حکومت نے مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے لیے 90 اسمبلی نشتیں بنانے کا اعلان کیا ہے۔