اس دن کو ہر برس دنیا کے 100 سے زائد ممالک مل کر یوم ماحولیات مناتے ہیں۔ سرکاری، غیرسرکاری اور دیگر ادارے اس موقع پر ماحولیات پر پڑ رہے منفی اثرات کے بارے میں عوام کی توجہ راغب کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہر سال اس دن کا ایک الگ موضوع ہوتا ہے۔ گزشتہ برس موضوع تھا فضائی آلودگی اور رواں سال کا موضوع ہے 'سلیبریٹ بائیوڈائیورسٹی'۔
ولر جھیل کا رقبہ ہر روز کم ہوتا جا رہا ہے وادی کی بات کریں تو گزشتہ کئی برسوں سے انتظامیہ اور غیر سرکاری تنظیموں نے ماحولیات کے دیکھ ریکھ کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں، تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ زمینی سطح پر کچھ زیادہ تبدیلی دیکھنے کو نہیں مل رہی۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے ماہر ماحولیات اور سینئر صحافی اطہر پرویز کا کہنا ہے کہ ' گزشتہ برسوں میں کافی اقدامات کیے گئے لیکن کچھ خاص فرق نہیں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ حیوانات کی بات کریں تو ہانگل کشمیر کی پہچان ہے تاہم ابھی بھی واضح طور پر نہیں بتا سکتے کہ ان کی تعداد میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔ ویٹ لائنز جن میں ولر جھیل بھی شامل ہیں ان کا رقبہ ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہوتا جا رہا ہے۔ ان سب باتوں پر انتظامیہ کو غور کرنے اور سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے'۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'آج کے دن کچھ لوگ اپنے ذاتی تعلقات بڑھانے کے لئے تقریب کا انعقاد کرتے ہیں جہاں سینئر عہدیداروں کو بلایا جاتا ہے۔ حقیقت میں ان لوگوں کو صرف اپنی پبلک ریلیشن بڑھانے میں دلچسپی ہوتی ہے ماحول کے بچاؤ میں نہیں۔'
عالمی وباء کورونا وائرس سے جہاں عوام خوف زدہ ہے اور اپنے گھروں میں محدود رہنے کو ترجیح دے رہی ہے ہیں وہی ماحولیات پر اچھے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
اس پر تفصیلی بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'عالم وبا کے پیش نظر لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا ہے جس وجہ سے گاڑیوں کی آمد و رفت میں نمایاں کمی دیکھی جا رہی ہے۔ آسمان اور ہوا صاف شفاف ہے اور جنگلی جانور جیسے سانپ اس وقت شہروں کا اور انسانی آبادی والے علاقوں کا رخ کر رہے ہیں۔ وہ ان جگہوں پر آ رہے ہیں جہاں کبھی وہی کا بسر ہوا کرتا تھا۔ البانیہ میں ایک سانچا فراہم کیا ہے جس پر عمل کرکے ہم آئندہ بھی ماحول کی حفاظت کر سکتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایسی پالیسی تشکیل دی گئی ہیں جس سے ماحول کی دیکھ ریکھ آسانی سے کی جائے۔ وہی سب یہاں بھی کرنے کی ضرورت ہے۔'
پرویز نے لاک ڈاؤن کے ختم ہونے کے بعد ماحول پر ہونے والے منفی اثرات بھی ظاہر کیے۔ ان کا کہنا ہے کہ 'عالمی اخبار کی وجہ سے عوام سماجی دوری کو ترجیح دے رہی ہے اور آنے والے دنوں میں پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال بھی کم ہونے کے امکان ہیں، جس وجہ سے گاڑیوں کی فروخت میں نمایاں تیزی آنے کا امکان ہے۔ گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ یعنی فضائی آلودگی مطلب ماحولیات پر منفی اثر۔ ان سب باتوں پر غور کر کے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔'