سرینگر:جموں و کشمیر میں صدر راج کے پانچ برس مکمل ہوچکے ہیں۔ مقامی سیاسی جماعتوں نے مرکزی حکومت کی شدید نقطہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ ان پانچ برسوں میں جموں کشمیر کے ہر شعبے کی صورتحال بد سے بدتر ہوچکی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ 18 جون 2018 میں بی جے پی نے پی ڈی پی کو حکومت سے حمایت واپس لی تھی جس کا اعلان اسوقت کے بی جے پی کے جنرل سیکرٹری رام مادھو نے دلی میں میڈیا کے سامنے کیا تھا۔ 19 جون کو یہاں صدر راج نافذ کیا گیا اور اس وقت کے گورنر ستیہ پال ملک نے اسمبلی کو تحلیل کرکے جموں و کشمیر کو گورنر نظام کے حوالے کردیا۔
پانچ اگست سنہ 2019 کو دفعہ 370 کی منسوخی اور سابق ریاست کو دو یونین ٹریٹریز میں تقسیم کرنے کے بعد جموں و کشمیر میں لیفٹینینٹ گورنر تعینات کیا گیا۔ ستیہ پال ملک کا تبادلہ کرکے یہاں گریس چندر مرمو کو پہلا ایل جی تعینات کیا گیا۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ جب جموں و کشمیر میں صدر راج یا گورنر راج نافذ کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے مارچ 1977 اور جولائی 1977 کے درمیان پہلی مرتبہ گورنر راج نافذ کیا گیا تھا۔ نیشنل کانفرنس کے بانی شیخ محمد عبداللہ کو قید سے رہائی کے بعد شیخ (عبداللہ) اور اندھرا (گاندھی) ایکاڈ کے بعد جموں و کشمیر کا وزیراعلی بنایا گیا تاہم گانگرس نے حمایت واپس لے لی۔
سنہ 1977 میں شیخ عبداللہ پھر اقتدار میں واپس آئے۔ تاہم مارچ 1984 میں شیخ عبداللہ کے داماد غلام محمد شاہ نے نیشنل کانفرنس کو تقسیم کرکے وزیراعلی بن گئے۔ ان کو گانگرس نے حمایت کی تھی، لیکن مارچ سنہ 1986 میں ان سے حمایت واپس لے کر یہاں گورنر راج فافذ کیا جو نومبر 1986 میں ختم ہوا۔ نومبر سنہ 1986 میں کانگرس نے شیخ عبداللہ کے فرزند فاروق عبداللہ کو حمایت کرکے حکومت سازی کی جب فاروق عبداللہ اور راجیو گاندھی نے یکجہتی کی۔ شیخ عبداللہ کی وفات سنہ 1982 میں ہوئی تھی۔
سنہ 1989 میں عسکریت پسندی کی شروعات سے ہی مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر میں جگموہن ملہوترا کو یہاں گورنر تعینات کیا گیا جس سے فاروق عبداللہ ناراض ہوئے اور انہوں نے وزیر اعلی کے عہدے سے استعفی دے دیا۔ جنوری سنہ 1990 اور اکتوبر سنہ 1996 کے مابین جموں و کشمیر میں چھ سال اور آٹھ ماہ تک گورنر راج نافذ رہا۔ سنہ 1996 میں اسمبلی انتخابات منعقد کیے گئے جس سے فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس اقتدار میں آئی۔