سرکاری اعدادوشمار کے مطابق دنیا بھر میں ایک سال میں سات ملین سے زائد افراد تمباکو نوشی کی وجہ سے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ بھارت کا شمار بھی دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے۔ وہیں وادی کشمیر کی بات کریں تو اس بری عادت نے یہاں کے بھی کئی نوجوانوں کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے اور ان کی تعداد میں ہر روز نمایاں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ نوجوان نسل میں تمباکو نوشی کا رجحان کافی زیادہ بڑھ رہا ہے۔
ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز ڈاکٹر سمیر موٹو نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'تمباکو کا جموں و کشمیر میں بہت زیادہ استعمال ہو رہا ہے۔ جس وجہ سے بیماریوں کا کافی زیادہ خطرہ لاحق ہے۔ خاص طور پر تب جب عالمی وبا کورونا وائرس وادی کے ساتھ ساتھ ملک میں بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ حاملہ خاتون، چھوٹے بچے بھی اس بری عادت کا شکار بن چکے ہیں۔'
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہمارا محکمہ عوام میں اس جانب بیداری پیدا کرنا اور تمباکو نوشی کے منفی اثرات کے بارے میں آگاہ کرنے کے لیے کئی ورکشاپ اور کیمپین کا انعقاد کرتا آیا ہے اور آئندہ بھی کرتا رہے گا۔ آج کے دن ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ ہم تمباکونوشی سے پرہیز کریں اور زندگی کو گلے لگائیں۔'
ماہرین کے مطابق سگریٹ پینے والا صرف خود کو ہی نقصان نہیں پہنچاتا بلکہ اس کا دھواں دوسرے افراد کو بھی متاثر کرتا ہے جس سے امراض قلب، پھیپھڑوں کا سرطانز سمیت کئی مرض جنم لیتے ہیں۔
حکومت کے مطابق سنہ 2008 میں تمام عوامی مقامات پر تمباکو نوشی پر مکمل پابندی عائد کی گئی ہے لیکن اس قانون پر عمل درآمد آج بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔
نیشنل ٹوبیکو کنٹرول پروگرام کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر محمد ناصر کا کہنا ہے کہ 'ہم کوشش کر رہے ہیں کہ جموں و کشمیر میں طلباء کو ونڈوز لائسنسنگ شروع کی جائے۔ اس کے بعد سگریٹ فروخت کرنے والے صرف سیکریٹ ہی فروخت کر پائیں گے اور کچھ نہیں۔ وہ بھی ایک مقرر جگہ پر۔ اسے مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں تمباکو کے استعمال میں کافی کمی ہونے کا امکان ہے۔'