سرینگر:ٹائم میگزین نے جموں و کشمیر کے انسانی حقوق کے محروس کارکن خرم پرویز کو سو بااثر عالمی شخصیات کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ اس فہرست میں امریکی صدر جو بائیڈن، روسی صدر ولادیمر پوتن، بھارت کے سرکردہ تاجر گوتم اڈانی، ٹی وی شو پرزنٹر اوپرا ونفرے، یوکرائن کے صدر ولادیمر زیلنسکی، چینی صدر زی جن پنگ، یورپین یونین کی سربراہ ارسلا وون ڈرلین اور پاکستان کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال بھی شامل ہیں۔ Time Magazine 100 most influential personalities of world in 2022
امریکہ کے معتبر صحافتی جریدے ٹائم میگزین نے جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے سرکردہ کارکن خرم پرویز کو سال 2022 کی دنیا کی سو بااثر ترین شخصیات کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ خرم پرویز کو بھارت کو قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) نے گذشتہ سال نومبر میں سرینگر سے گرفتار کیا اور وہ فی الوقت دلی کی تہاڑ جیل میں قید ہیں۔ خرم پرویز جموں و کشمیر میں ایک غیر سرکاری تنظیم 'کیولیشن آف سول سوسائٹی' کے کوآر ڈینیٹر ہیں۔ Khuram Parvaiz In Time Magazine List
خرم کی پروفائل میں ٹائم میگزین نے لکھا ہے کہ "خرم پرویز ایشین فیڈریشن اگینسٹ انوالنٹری ڈس اپیرنسز کے چیئرپرسن ہیں۔ ان کو گذشتہ سال نومبر میں گرفتار کیا گیا تھا۔ انہیں اس لیے خاموش کیا گیا کیونکہ ان کی آواز کشمیر کے خطے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ناانصافیوں کے خلاف پوری دنیا میں گونجتی تھی۔"Chairman Asian Federation Against Involuntary Disappearances
خرم پرویز کو حکام نے نومبر 2021 میں ان کی سرینگر کے سونہ وار علاقے میں واقع رہائش گاہ سے گرفتار کیا تھا اور عالمی انسانی حقوق تنظیموں کے شدید احتجاج کے باوجود انہیں رہا نہیں کیا گیا۔ حکام کہتے ہیں کہ وہ عسکریت پسندوں کو تشدد پھیلانے کے لیے بیرون ممالک سے رقومات جمع کرنے میں ملوث ہیں۔ اس کیس میں بھارت کی اعلیٰ پولیس سروس یا آئی پی ایس سے وابستہ ایک پولیس افسر کو بھی حراست میں لیا جاچکا ہے۔
خرم پرویز جموں و کشمیر کے دارالحکومت سرینگر کے سونہ وار کے رہنے والے ہیں اور انسانی حقوق پر کام کرنے کی بدولت عالمی مقبولیت حاصل کی ہے اور انسانی حقوق پر کام کرنے والے رافٹو مونڈیشن نے انہیں بین الاقوامی اعزازا سے بھی نوازا۔ خرم پرویز کا دائرہ کار اگرچہ جموں و کشمیر تھا لیکن انہیں فلپائن میں قائم ایسوسی ایشن آف ڈس اپیئرڈ پرسنز یا افاڈ کا بھی چیئرمین منتخب کیا گیا تھا جو کئی ممالک میں گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے جدوجہد کرتی ہے۔
ٹائم میگزین نے اپنی تازہ ترین اشاعت میں خرم پرویز پر بھی ایک مضمون شائع کیا ہے جسے بھارت کی سرکردہ خاتون صحافی رانا ایوب نے تحریر کیا ہے۔
واضح رہے کہ خرم پرویز جسمانی طور ناخیز بھی ہیں۔ وہ 20 اپریل 2004 کو شمالی کشمیر میں ایک بارودی سرنگ کے پراسرار دھماکے میں اس وقت زخمی ہوئے تھے جب ان کی گاڑی کو ریموٹ کنٹرول کے ذریعے اڑایا گیا۔ اس واقعے میں ان کی ایک ساتھی آسیہ ہلاک ہوگئی تھیں جب کہ خرم کی ایک ٹانگ جسم سے جدا ہوگئی تھی۔ وہ مصنوعی ٹانگ کے سہارے چلتے ہیں۔
خرم کی گرفتاری پر انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے مذمت کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ رافٹو فاؤنڈیشن نے کہا تھا کہ انہیں اس بات کا افسوس ہے کہ بھارتی حکومت ان شہریوں کو ہراساں کر رہی ہے جو انسانی حقوق کی پاسبانی اور ان ٹریٹیز کی پاسداری کر رہے ہیں جو آئین ہند میں واضح ہیں۔
اقوام متحدہ کے اسپیشل رپوٹئر ہیومن رائٹس مارے لالر نے ٹویٹ کرتے لکھا تھا کہ 'خرم پرویز دہشت گرد نہیں ہیں بلکہ انسانی حقوق کے دفاع کرنے والے کارکن ہیں۔ ان کی گرفتاری افسوسناک ہے'۔
اقوام متحدہ کے سابق اسپیشل رپوٹئر ڈیوڈ کے نے لکھا تھا کہ 'خرم پرویز کی گرفتاری کشمیر میں ایک اور غیر معمولی ہراسانی ہے'۔ جینیوا میں ولڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اگینسٹ ٹارچر نے ٹویٹ میں خرم کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہو کہا کہ خرم کو حراست میں ٹارچر کرنے کا خدشہ ہے۔'
خرم پرویز کی این آئی اے حراست میں اس ماہ کے اوائل میں ایک سو ایام کا اضافہ کیا گیا تھا۔ این آئی اے کا کہنا ہے کہ ٹیرر فنڈنگ کیس میں خرم اور ان کے ساتھیوں کی پوچھ تاچھ جاری ہے۔
ٹائم میگزین کی جانب سے خرم پرویز کو بااثر عالمی شخصیات میں شامل کرنے سے ان کی رہائی کا مطالبہ مزید زور پکڑ سکتا ہے۔ اس فہرست میں امریکی صدر جو بائیڈن، روسی صدر ولادیمر پوتن، بھارت کے سرکردہ تاجر گوتم اڈانی، ٹی وی شو پرزنٹر اوپرا ونفرے، یوکرائن کے صدر ولادیمر زیلنسکی، چینی صدر زی جن پنگ، یورپین یونین کی سربراہ ارسلا وون ڈر لی ین اور پاکستانی چیف جسٹس عمر عطا بندیال بھی شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: