جسٹس علی محمد ماگرے و جسٹس دھیرج سنگھ ٹھاکر پر مشتمل ایک بینچ نے معاملے کی اگلے سماعت 7 فروری کی صبح ساڑھے دس بجے مقرر کرتے ہوئے مدعا علیان بشمول پروڈکشن ہاؤس اور دیگر متعلقین کو جمعہ کی صبح تک ہی یہ جواب، کہ فلم کی ریلیز پر روک کیوں نہیں لگائی جائے، دائر کرنے کی ہدایات جاری کیں۔
مدعیان کے وکیل شفقت نذیر نے بتایا: 'بینچ کا کہنا تھا کہ چونکہ عرضی میں اٹھایا گیا مسئلہ فوری مداخلت کا تقاضہ کرتا ہے اس کے پیش نظر ہم کیس کو جمعہ کی صبح کیس نمبر ایک کے طور پر اٹھانے کی تجویز رکھتے ہیں۔ کیس کی سماعت جمعہ کی صبح ساڑھے دس بجے ہوگی'۔
انہوں نے مزید کہا: 'ریاستی مدعا علیہان، مرکزی حکومت، پروڈکشن ہائوس کو جمعہ کی صبح تک اپنا جواب دائر کرنے کے لئے کہا گیا ہے کہ کیوں نہ ہم فلم کی ریلیز پر روک لگائے۔ ایڈوکیٹ جنرل سے کہا گیا ہے کہ وہ جموں سے سری نگر آئے اور اس بات کی یقین دہائی کرائے کہ فلم میں کچھ بھی غلط نہیں ہے۔ مدعا علیہان کو ای میل بھیجا گیا ہے جس میں ان سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی حاضری یقینی بنائیں'۔
دریں اثنا عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے معاملہ عجلت کا تقاضہ کرتا ہے اور جمعہ کو ہونے والی سماعت کے دوران مدعا علیہان بالخصوص سرکاری مدعا علیہان کا جواب حاصل کیا جائے گا۔
اس میں مزید کہا گیا: 'ہم اے ایس جی آئی مسٹر طاہر ماجد شمسی اور سینئر اے اے جی مسٹر بشیر احمد ڈار سے کہتے ہیں کہ وہ مدعا علیہان سے جواب حاصل کریں۔ ایڈوکیٹ جنرل کو بذریعہ نوٹس کہا جاتا ہے کہ وہ کل عدالت میں حاضر رہیں'۔
بتادیں کہ ہائی کورٹ کی سری نگر ونگ نے بدھ کے روز تین کشمیر نشین سماجی کارکنوں کی طرف سے معروف فلمساز ودھو ونود چوپڑا کی فلم 'شکارا' کی ریلیز روکنے کے لئے دائر کی گئی مفاد عامہ کی عرضی کو سماعت کے لئے منظور کیا تھا۔ عرضی میں فلم پر فوری طور پر روک لگانے اور سنسر بورڈ کی طرف سے فلم سے کچھ ڈائیلاگ نکالے جانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
فلم کی ریلیز کے خلاف مفاد عامہ کی عرضی دائر کرنے والے کشمیری سماجی کارکنوں افتخار حسین مسگر (سابق نیشنل کانفرنس لیڈر)، ماجد حیدری (صحافی) اور عرفان حافظ لون (وکیل) کا مفاد عامہ کی عرضی میں کہنا ہے کہ ودھو ونود چوپڑا کی فلم شکارا میں فرقہ وارانہ مواد شامل ہے اور اس میں کشمیری مسلمانوں کو انتہائی منفی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔