بھیڑ اور بکریوں پر تحقیقات جاری سرینگر: اگرچہ بھیڑ اور بکریاں پالنے کا کام صدیوں پرانا ہے تاہم جدیدیت کے آنے سے اس کام کی جانب لوگوں کا رُجحان کم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہاں تک کہ بھیڑ اور بکریوں کی کئی نسلیں اب ختم بھی ہو چکی ہیں لیکن شیر کشمیر زرعی یونیورسٹی وادی کی نایاب بھیڑ اور بکریوں کو تحفظ فراہم کرنے اور ان پر تحقیق کا آغاز کیا ہے۔ کشمیر زرعی یونیورسٹی کے شعبہ ماؤنٹین ریسرچ سینٹر برائے بھیڑ اور بکری ڈیپارٹمنٹ کے سائنسدان ڈاکٹر مزمل عبداللہ نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ہمارے پاس بھیڑ بکریوں کی کل 12 قسم اس وقت موجود ہیں۔ ان پر مختلف قسم کی تحقیق ہو رہی ہے۔ جیسے گوشت اور اون کی پیداوار میں اضافہ کے علاوہ ماحولیاتی تبدیلیوں کو بہتر طریقے سے اپنانا وغیرہ۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت ہمارے پاس بھیڑ کی قسموں میں سے دورسٹ ، ساؤتھ ڈاؤن، گریزی ، فینگوشی، کورادیل اورکشمیری میرینو ہے اور اس کے علاوہ چند یہاں کی نئی نسلیں ہے جن پر ابھی تحقیق جاری ہے۔ وہیں ہمارے پاس بکریوں کی نسلوں میں بکروالی، پشمینا اور جنوبی افریقہ کی بویال ہے،ان سب پر تحقیق جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ گریزی میں چار سینگ والے بھیڑ بھی ہیں۔ ہمارا مقصد ان سب نسلوں کو محفوظ رکھنا اور ضرورت پڑنے پر عوام کو فراہم کرنا ہے۔
مزید پڑھیں:
کشمیر میں پہلی کلون شدہ بکری 'نوری' کی موت، سائنس کی دنیا کو بہت بڑا نقصان
اُنہوں نے مزید کہا کہ "پشمینہ پر تحقیق کی جا رہی ہے کہ یہ بکریاں کہیں بھی رہے لیکن اُن کے اُون کی پیدا وار میں فرق نہ پڑے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ کشمیر میں لوگ بکری کے گوشت کو زیادہ پسند نہیں کرتے، بھیڑ کے گوشت کو پسند کرتے ہیں، اس لیے بھیڑ کی گوشت پیداوار میں اضافہ کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ وہیں بکری کے دودھ دینے کی قوت میں اضافہ کرنے پر تحقیق شروع ہونے والی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم دودھ والی قسم جیسے پنجاب کی بیٹل یہاں لائینگے اور اس پر تحقیق کریں گے۔ بکری کا دودھ کئی امراض میں مفید ہوتا ہے۔"
کشمیر کی زرعی یونیورسٹی کی جانب سے آج سے تقریباً 11 برس قبل کلون شدہ جانور فراہم کیا تھا۔ اس کلون شدہ پشمینہ بکری کا نام نوری رکھا گیا تھا۔ چند ہفتے قبل اس بکری کا انتقال ہو گیا لیکن اس دوران اس سے سات زائد بچے دیے اور سب تندرست ہیں۔ ڈاکٹر عبداللہ شروع سے ہی نوری پروجیکٹ کے ساتھ جڑے رہے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ "نوری کا انتقال ہم سب کے لیے صدمہ تھا۔ وہ ہم سب کی بہت پیاری تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ ایک انسان کی طرح ہمارے ساتھ تھی۔ بڑے ناز اور نخروں سے پلی تھی۔وہ ہماری یونیورسٹی کی شان تھی ۔ اس کی وجہ سے ہم کلون ٹیکنالوجی میں کامیابی ملی اور اب ہم جنس کی ایڈیٹنگ پر کام کر رہے ہیں۔