جموں و کشمیر کا نام سنتے ہی آپ کے ذہن میں خوبصورت وادیوں اور بلند و بالا پہاڑوں کا خیال آجاتا ہے یا وسیع وعریض میوہ باغات میں سیبوں سے مزین ہزاروں درختوں کا منظر آپ کے تصور میں آتا ہے۔
وادی میں سالانہ 7 سے 8 ہزار ٹن سیب کی پیداوار ہوتی ہے۔ یہ صنعت یہاں کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی تصور کی جاتی ہے۔ لیکن اب سیبوں کی کشمیری اقسام آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہیں۔ آپ سوچ رہے ہونگے کہ ہر سال کشمیر سے مختلف ریاستوں میں سیبوں کی سپلائی تو ہوتی ہی ہے تو کشمیری سیب ختم کیسے ہو رہے ہیں؟
دراصل جو سیب کشمیر سے آپ تک پہنچ رہا ہے، اس کا پودا بلغاریہ، اٹلی یا کئی دیگر ممالک سے درآمد کر کے جموں و کشمیر میں لگایا جا رہا ہے۔
کشمیری سیب لذت کے اعتبار سے منفرد ہے تاہم کشمیر میں اب بلغاریہ، امریکہ، آسٹریلیا، چین، اٹلی و دیگر کئی ممالک کے سیبوں کی اقسام اگائی جارہی ہیں جس کے باعث کشمیری سیب کے لئے مقابلے کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔
وادی میں سالانہ 7 سے 8 ہزار ٹن سیب کی پیداوار ہوتی ہے۔ یہ صنعت یہاں کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی تصور کی جاتی ہے۔ خطے کی ایک بڑی آبادی نہ صرف سیب کی کاشتکاری سے وابستہ ہے بلکہ سیب کے پودے تیار کرنے والے ہزاروں افراد کی روزی روٹی بھی اس سے منسلک ہے.
کاشتکار بیرون ممالک سے درآمد کیے جانے والے سیب اپنے باغات میں اس لیے لگا رہے ہیں، کیونکہ ان پودوں پر ایک سال کے اندر اندر پھل لگ جاتا ہے وہیں اگر کشمیری نسل کے پودے کی بات کی جائے تو وہ کم از کم دس سال کے بعد پھل دیتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
بارش کی پیش گوئی کے درمیان شبانہ درجہ حرارت میں بہتری
نرسری مالکان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی نرسریوں میں پیوندکاری کے ذریعہ ہائی ڈنسٹی پلانٹیشن میں موجود اعلی کوالیٹی کے سیب جیسے، گرینی سمتھ، گالا میما، ڈیول گالا، کنگ روٹ، جیرو مائن و کئی دیگر اقسام کے سیب تیار کر رہے ہیں۔
خطے میں ہائی ڈینسٹی پلانٹیشن کے رائج ہونے سے سیب کی صنعت میں ایک نیا انقلاب دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ کشمیری نسل کے روایتی لذیذ اور رس دار سیب کب تک غیر مقامی اقسام کے سیبوں کا مقابلہ کر سکیں گے۔