سرینگر:رمضان المبارک کے آخری عشرے کی اہم ترین عبادت اعتکاف ہے۔ اعتکاف دراصل عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ٹھہر جانے اور خود کو روک لینے کے ہیں۔ اس عبادت میں انسان صحیح معنوں میں سب سے کٹ کر اللہ تعالیٰ کے حضور یکسو ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔ خلوت میں خوب توبہ استغفار کرتا ہے، تلاوت، نوافل ، ذکر و ازکار کرتا ہے، دعا و التجا کرتا ہے اور اس کی ساری توجہ اس امر پر مرکوز رہتی ہے کہ شب قدر کی تلاش اور اس مبارک رات کی عبادت میں کامیاب ہوجائیں تاکہ اللہ تعالیٰ بندے سے راضی ہو جائے۔ وہیں صدقہ فطر ہر صاحب استطاعت مسلمان پر یکم رمضان کی صبح طلوع ہوتے ہی واجب ہو جاتا ہے اور اس کے ادا کرنے کا آخری وقت نماز عید سے پہلے تک ہے۔
ای ٹی وی بھارت کے نمائندے پرویز الدین نے "اعتکاف اور صدقہ فطر کی اہمیت و فضیلت" کے موضوع پر مولانا عبدالرحمان شمس سے بات کی، جس پر انہوں نے کہا کہ مسنون اعتکاف کا وقت رمضان المبارک کو غروب آفتاب سے قبل اعتکاف کی نیت سے شرعی مسجد میں بھیٹنے سے شروع ہوتا ہے جب کہ شوال کا چاند نظر آنے تک رہتا ہے۔ 29 رمضان کو عید کا چاند نظر آئے یا 30 رمضان کو آفتاب غروب ہو جائے تو مسنون اعتکاف ختم ہوجاتا ہے۔
اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ ’’ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے۔ دنیا دار فانی سے پردہ فرما جانے تک آپ کا یہ معمول رہا۔ آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات اہتمام سے اعتکاف کرتی رہیں’’۔
فضلیت اعتکاف کے بارے میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا’’جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ایک دن کا اعتکاف کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقوں کو آڑ بنا دیں گے۔ ایک خندق کی مسافت آسمان و زمین کی درمیانی مسافت سے بھی زیادہ چوڑی ہے‘‘۔
نزول قرآن سے پہلے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت مبارک میں سب سے الگ ہوکر تنہائی میں ﷲ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے ذکرو فکر کا جو بے قراری والا جذبہ پیدا ہوا تھا جس کے نتیجہ میں آپ مسلسل کئی کئی مہینے غار حرا میں خلوت نشینی کرتے رہے، یہ گویا آپ کا پہلا اعتکاف تھا اور اس اعتکاف ہی میں آپ صلی ﷲ علیہ وسلم پر قرآن مجید کا نزول شروع ہوا۔
چنانچہ حرا کے اس اعتکاف کے آخری ایام میں ﷲ ربّ العزت کی طرف سے حضرت جبرئیل ؑ سورۂ اقرأ کی ابتدائی آیات لے کر نازل ہوئے۔ تحقیق یہ ہے کہ یہ رمضان المبارک کا مہینہ اور اس کا آخری عشرہ تھا اور وہ رات شب قدر تھی۔اس لئے بھی اعتکاف کے لئے رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا انتخاب کیا گیا۔
اعتکاف کی فضیلت بیان کرتے ہوئے عبدالرحمان شمس نے کہا کہ روح کی تربیت اور نفسانی خواہشوں کو ترک کرکے تقویٰ اختیار کرنے کے لئے رمضان المبارک کے روزے تمام افراد امت پر فرض کئے گئے ہیں اور اپنے باطن میں روحانیت کو غالب اور بہیمیت کو مغلوب کرنے کے لئے اتنا مجاہدہ اور نفسانی خواہشات کی اتنی قربانی تو ہر ایک مسلمان کے لئے لازم کردی گئی کہ وہ اس پورے مہینے میں ﷲ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل اور اس کی عبادت کی نیت سے دن کو نہ کچھ کھائے نہ پیئے اور اس کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے گناہوں بلکہ فضول باتوں سے بھی پرہیز کرے اوریہ پورا مہینہ ان پابندیوں کے ساتھ گزارے اور اس سے آگے اللہ تعالیٰ سے خصوصی تعلق پیدا کرنے کے لئے اعتکاف رکھا گیا ہے کہ اس میں ﷲ کا بندہ سب سے کٹ کر اور سب سے ہٹ کر اپنے مالک و رازق کے در پر پڑجاتا ہے۔اسی کو یاد کرتا ہے اسی کے دھیان میں رہتا ہے اس کی تسبیح و تقدیس کرتا ہے اس کے حضور میں توبہ استغفار کرتا ہے۔ اپنے گناہوں اور قصوروں پر روتا ہے اور رحیم و کریم مالک سے رحمت و مغفرت مانگتا ہے اس کی رضا اور اس کا قرب چاہتا ہے۔اسی حال میں اس کے دن گزرتے ہیں اور اسی حال میں اس کی راتیں۔ ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر کسی بندے کی سعادت اور کیا ہوسکتی ہے۔