سرینگر: جموں و کشمیر اور لداخ کی ہائی کورٹ کے جسٹس رجنیش اوسوال نے کہا کہ میڈیکل معاوضے کے دعوے کو اس بنیاد پر مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ جس ہسپتال میں علاج ہوا کہ وہ منظور شدہ ہسپتالوں میں سے نہیں تھا۔ اس عرضی کے ساتھ، جسٹس نے جواب دہندگان سے کہا کہ وہ درخواست گزار کے طبی اخراجات کے دعوے پر قواعد کے مطابق غور کریں۔ اس کے علاوہ کورٹ نے دو ماہ میں اس پر عمل درآمد کرنے کے احکامات صادر کیے ہیں۔ بتادیں کہ یہ معاملہ ایک عارضی خاتون ورکر کا ہے۔
سال 2010 میں مذکورہ خاتون اپنے شوہر کے ساتھ جموں و کشمیر سے ناگپور کے ذاتی سفر پر گئی تھی۔ جہاں اس کا شوہر شدید بیمار ہو گیا تھا جس کے بعد انہیں ناگپور کے کالاپاترو ہسپتال میں داخل کرایا گیا اور دوران علاج ہی اس کی موت واقع ہوگئی۔ ان کے علاج پر خاتون کے 25 لاکھ روپے خرچ ہوئے تھے۔ جس کے بعد خاتون نے میڈیکل معاوضے کا دعویٰ کیا، تاہم وہ صرف 12 لاکھ روپے کے بل ہی پیش کر سکیں۔ عرضی گزار نے کہا کہ کچھ اخراجات کے بل نہیں ہیں۔ دعوے کے برخلاف اسے صرف 1.5 لاکھ روپے اد کیے گئے۔ اس حوالے سے متعلقہ حکام نے بتایا کہ جس ہسپتال میں اس نے اپنے شوہر کا علاج کروایا وہ منظور شدہ ہسپتالوں میں سے ایک نہیں ہے۔