اردو

urdu

ETV Bharat / state

'تاریخی ریاست جموں و کشمیر کو آج ریاستی درجے کی بھیک مانگنی پڑتی ہے' - karan Singh on statehood of J&K

ڈاکٹر کرن سنگھ نے کہا کہ سال 1947 کے بعد ہمارے پاس آدھی ریاست ہی رہ گئی تھی لیکن پانچ اگست 2019 کو اس آدھی ریاست کو بھی دو حصوں میں منقسم کیا گیا جو باعث تعجب ہے۔

'تعجب ہے کہ 'تاریخی ریاست' جموں و کشمیر کو آج ریاستی درجے کی بھیک مانگنا پڑتی ہے'
'تعجب ہے کہ 'تاریخی ریاست' جموں و کشمیر کو آج ریاستی درجے کی بھیک مانگنا پڑتی ہے'

By

Published : Jul 9, 2021, 7:01 PM IST

سینیئر کانگریس لیڈر اور جموں و کشمیر کے سابق صدر ریاست ڈاکٹر کرن سنگھ کا کہنا ہے کہ ایک زمانے کی سب سے بڑی اور تاریخی ریاست کو آج ریاستی درجے کی بحالی کی بھیک مانگنی پڑتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سال 1947 کے بعد ہمارے پاس آدھی ریاست ہی رہ گئی تھی لیکن پانچ اگست 2019 کو اس آدھی ریاست کو بھی دو حصوں میں منقسم کیا گیا جو باعث تعجب ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جموں و کشمیر میں یونین ٹریٹری کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک ریاست کی حیثیت سے انتخابات کرائے جانے چاہئے۔

موصوف سینیئر لیڈر، جو جموں و کشمیر کے آخری ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کے فرزند بھی ہیں، نے ان باتوں کا اظہار ایک نیوز پورٹل کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کے دوران کیا ہے۔

انہوں نے کہا: 'ایک زمانے میں جموں و کشمیر سب سے بڑی ریاست تھی اور 84 ہزار میل مربع اراضی پر پھیلی ہوئی تھی، سنہ 1947 میں یہ ریاست آدھی رہ گئی اور جو ریاست بچی تھی وہ بھی پانچ اگست 2019 کو توڑ دی گئی اور تعجب کی بات یہ ہے کہ آج ہمیں ریاستی درجے کی بحالی کی بھیک مانگنا پڑتی ہے'۔

سنگھ نے وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ہوئی جموں و کشمیر کے سیاسی لیڈروں کی کُل جماعتی میٹنگ کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا: 'کُل جماعتی میٹنگ اچھی بات ہے اس میٹنگ سے بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا کیونکہ پانچ اگست کے بعد یہاں سیاسی گفتگو بند ہوئی تھی'۔

انہوں نے کہا کہ پانچ اگست کو جو بی جے پی حکومت نے فیصلے لئے وہ ان کے ایجنڈے میں بھی شامل تھے اور ملی ٹنسی بھی ان کی ایک وجہ بنی۔

ان کا کہنا تھا کہ کشمیری نوجوانوں کو سبز باغ دکھا کر ورغلایا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں کی تعداد میں نوجوان مارے گئے۔

دربار مو کی قدیم روایت کے خاتمے کے بارے میں پوچھے جانے پر موصوف سابق صدر ریاست نے کہا: 'جب جموں و کشمیر ریاست بنی تو اس کی دو راجدھانیاں تھیں جموں میں چھ ماہ دربار لگتا تھا اور سری نگر میں چھ ماہ دربار لگتا تھا کیونکہ اس کے بغیر کوئی رابطہ نہیں بنتا تھا لیکن آج حالات بدل گئے ہیں اب جموں میں بارہ ماہ مستقل انتظامیہ موجود ہونی چاہئے اور سری نگر میں بھی'۔

انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر میں اسمبلی نشستوں کی سر نو حد بندی کے بعد ریاستی درجہ بحال ہونا چاہئے اور اس کے بعد انتخابات کرائے جانے چاہئے کیونکہ یہاں یونین ٹریٹری کی حیثیت سے نہیں بلکہ ریاست کی حیثیت سے انتخابات منعقد ہونے چاہئے۔

صوبہ جموں کو الگ ریاستی درجہ ملنے کے بارے میں پوچھے جانے پر موصوف لیڈر نے کہا: 'میں نے سال 1964 میں ہی کہا تھا کہ جموں کو الگ ریاستی درجہ دیا جانا چاہئے اور اس کے ساتھ ہماچل پردیش کے کچھ اضلاع ملائے جانے چاہئے لیکن اس وقت اس کی مخالفت ہوئی'۔

انہوں نے کہا کہ جموں خطے کے حالات اب بہتر ہو رہے ہیں اور فی الوقت اس کو الگ ریاست بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں:Delimitation Commission: 'حد بندی صاف و شفاف طریقہ سے کی جائے گی'

سنگھ نے جموں و کشمیر پر ڈوگرہ راج کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا: 'جموں و کشمیر پر سو سال تک ڈوگرہ راج قائم رہا لیکن کبھی کوئی بڑی بغاوت نہیں ہوئی تاہم شیخ محمد عبداللہ نے بیچ میں لوگوں کے جذبات ابھارنے کی کوشش ضرور کی'۔

انہوں نے کہا: 'جب موئے مقدس غائب ہوا تو میں درگاہ حضرت بل پہنچا اور لوگوں نے مجھے دیکھتے ہی شور اٹھایا کہ 'ہمارا راجا آ گیا'، 'ہمار راجا آ گیا' جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کے لوگوں میں ڈوگرہ راج کے خلاف کوئی رنجش نہیں تھی لیکن شیخ عبداللہ نے لوگوں کو ہمارے خلاف بھڑکایا'۔

موصوف لیڈر نے کہا کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے کئی اصلاحی اقدام اٹھائے جن میں سٹیٹ سبجیکٹ ایک قانون تھا جس کے تحت یہاں کی زمین اور نوکریاں محفوظ تھیں۔

انہوں نے کہا کہ ڈوگروں نے جموں و کشمیر کے لئے گران قدر قربانیاں دی ہیں لیکن تاریخ کی کتابوں میں ان کا تذکرہ نہیں ہے۔

مہاراجہ ہری سنگھ کے جموں و کشمیر چھوڑنے کے بعد دوبارہ کبھی بھی وطن واپس نہ لوٹنے کے بارے میں ان کا کہنا تھا: 'اس کے لئے بھی حالات شیخ محمد عبداللہ نے ہی پیدا کئے کیونکہ اس وقت رائے شماری کی بات چل رہی تھی وہ جانتے تھے کہ یہاں مہاراجہ ہری سنگھ ہے میں جیت نہیں سکتا لہٰذا مہاراجہ کو چھ ماہ کے لئے باہر بجھوایا پھر وہ چھ ماہ کبھی پورے نہیں ہوئے'۔

انہوں نے کہا کہ کانگریس کی کوشش تھی کہ جموں و کشمیر سنبھل جائے تو اس کو اٹانومی دی جائے نیشنل کانفرنس مکمل اٹانومی کی بات کرتا تھا کانگریس 75 فیصدی دینے کے لئے تیار تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ جب بھی جموں و کشمیر کے معاملے کے بارے میں کوئی بات بننے لگتی ہے تو بدقسمتی سے کچھ نہ کچھ ایسا ہوتا ہے کہ کاوشیں ضائع ہو جاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں نے اپنی نوے برس کی عمر میں سے 36 برس جموں و کشمیر میں گزارے ہیں جبکہ باقی باہر گزارے ہیں لیکن مجھے جموں اور سری نگر سے بہت محبت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سری نگر میں ہمارا مکان ہے جو ایک خوبصورت جگہ پر واقع ہے اور جموں مندروں کی سرزمین ہے جن کو میں بہت یاد کرتا ہوں۔

یو این آئی

ABOUT THE AUTHOR

...view details