جسٹس علی محمد ماگرے اور جسٹس ونود چٹرجی کول پر مشتمل ڈویژن بینچ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ معاملے پر گزشتہ شنوائی کے دوران دونوں طرف کے بیانات پر غور کیا گیا جس کے بعد عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ آر ٹی او کشمیر کی جانب سے جاری کیا گیا حکمنامہ موٹر وہیکل رولز 1989 کے سیکشن 54 کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ اس لیے اس سرکیولر کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ جواب دہندہ کو ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ سینٹرل موٹر وہیکلز ایکٹ کے رول 54 کا مطالعہ کریں۔ اس کے بعد اُن کو واضح ہو جائے گا کہ گاڑیوں کا نیا اندراج کیسے کیا جا سکتا ہے۔
بینچ کا کہنا ہے کہ اگر گاڑی کا ایک بار بھارت کی کسی بھی ریاست میں رجسٹریشن کیا گیا ہو تو کسی اور جگہ دوبارہ رجسٹریشن کرانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔'
بینچ کا مزید کہنا تھا کہ 'ہم جواب دہندہ پر چھوڑتے ہیں کہ وہ کیسے غیر مقامی اندراج والی گاڑیاں جو مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں داخل ہو رہی ہیں اُن کے دستاویز کی جانچ کریں۔'
واضح رہے کہ عدالت نے گزشتہ جمعرات کو معاملے کی سماعت مکمل کرنے کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ رکھا تھا اور آج فیصلہ سامنے آنے کے بعد عوام کو بڑی راحت پہنچی ہے۔
اپنا فیصلہ سناتے ہوئے بینچ کا کہنا تھا کہ 'درخواست گزار کا کہنا ہے کہ وہ گاڑی کی فروخت کے وقت ہی ٹیکس کی ادائیگی کر چکے ہیں۔ تاہم دوبارہ اندراج کے وقت اُن کو یہ ٹیکس دوبارہ بھرنے کو کیوں کہا جا رہا ہے۔ عدالت کا ماننا ہے کہ اس حکمنامے کی وجہ سے درخواست گزار کو دوبارہ ٹیکس دینا پڑے گا۔ یہ بھارت کے آئین کی خلاف ورزی ہے۔ اس لیے اس حکمنامے کو منسوخ کیا جاتا ہے۔'
عدالت کا مزید کہنا تھا کہ 'جواب دہندہ کے پاس گاڑیوں کے اندراج کی جوریڈکشن نہیں ہے۔ اس لئے حکمنامے کو منسوخ کیا جاتا ہے۔ اس حکمنامے کی وجہ سے عوام کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور یہ حکم نقل و حرکت کے حقوق کی بھی پامالی کرتا ہے۔ اس لیے اس کو کالعدم کرنا ضروری ہے۔'
واضح رہے کہ گزشتہ مہینے کی 27 تاریخ کو آر ٹی او کشمیر نے ایک حکمنامے کے ذریعے باہر سے لائی گئی گاڑیوں کے مالکان کو دوبارہ اندراج کرنے کا فرمان جاری کیا تھا جس کے بعد ہزاروں گاڑیاں ضبط کی گئیں۔ پھر رواں مہینے کی 3 تاریخ کو ایڈوکیٹ ظہور حمید بٹ نے عدالت کا رخ کیا۔ عدالت میں سات بار سماعت کے بعد ڈویژن بینچ نے اپنے فیصلے کو محفوظ رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔