سرینگر (جموں و کشمیر):ہائی کورٹ آف جموں کشمیر اینڈ لداخ نے جموں و کشمیر سروس سلیکشن بورڈ (ایس ایس بی) کے چیئرمین خالد جہانگیر کے خلاف اسسٹنٹ انفارمیشن آفیسر گریڈ دوم کے عہدوں، جس کے لیے 2006 میں اشتہار شائع کیا گیا تھا، کے لیے نئے انتخاب کے طریقہ کار کو انجام دینے میں ناکامی پر توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
جموں و کشمیر انتظامیہ کے 31 اکتوبر 2019 سے پہلے جے کے پی ایس سی/جے کے ایس ایس بی کو بھیجی گئی تمام پوسٹس کو واپس لینے کے پالیسی فیصلے کی روشنی میں ہائی کورٹ بنچ - جو چیف جسٹس نونگمیکاپم کوٹیشور سنگھ اور جسٹس جاوید اقبال وانی پر مشتمل تھی - نے مشاہدہ کیا کہ ’’اس معاملہ میں ہدایت پر عمل نہیں کیا جا سکتا اوریہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ ایس ایس بی انتخاب کے طریقہ کار کے مطابق کوئی تقرری کرنے سے قاصر ہے۔‘‘ قبل ذکر ہے کہ یہ وہ پوسٹس تھیں جن کے لیے انتخاب کو حتمی شکل نہیں دی گئی تھی یا جن عہدوں پر مقدمات زیر التواء تھے۔
درخواست گزار، اشفاق تانترے نے اپنی عرضی میں دعویٰ کیا تھا کہ انتظامی فیصلے کو عدالتی فیصلہ کو کالعدم کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا اور ایس ایس بی پر جان بوجھ کر احکام کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا تھا، لیکن عدالت کا ماننا ہے کہ ’’اگر مذکورہ انتظامی فیصلہ، خاص طور پر کسی خاص کیس میں عدالتی حکم کے اثر کو ختم کرنے کے لیے لیا گیا تھا، تو یقیناً یہ عدالتی حکم کی خلاف ورزی کے مترادف ہوگا۔ تاہم، موجودہ کیس میں جو بات قابل غور ہے وہ یہ کہ 29 جنوری 2022 کو لیا گیا انتظامی فیصلہ کسی خاص کیس کے حوالے سے نہیں تھا بلکہ 2010 کی تاریخ کے مخصوص حکم کے ساتھ تھا جو ان تمام معاملات پر لاگو ہوتا ہے جہاں پالیسی فیصلہ لینے تک انتخاب کو حتمی شکل نہیں دی گئی تھی اور ان اسامیوں کے سلسلے میں جو 31 اکتوبر 2019 سے پہلے جے کے پی ایس سی/جے کے ایس ایس بی کو بھیجے گئے تھے اور جہاں عدالتوں میں قانونی چارہ جوئی اور مقدمات زیر التوا تھے۔‘‘