ایک طرف عدالت کے اس فیصلے سے عوام کو ہو رہی مشکلات کا ازالہ ہوا ہے تو وہیں اس سرکلر کے خلاف عدالت کا رخ کرنے والے درخواست گزار ایڈوکیٹ ظہور احمد بٹ کا ماننا ہے کہ 'وہ عوام کے حقوق کے لیے مستقبل میں بھی عدالت کا رخ کرتے رہیں گے'۔
ایڈوکیٹ ظہور احمد بٹ کا کہنا ہے کہ 'عدالت کی ڈویژن بینچ نے گزشتہ روز ایک تاریخی فیصلہ سنایا۔ اس معاملے کی سماعت بھی فاسٹ ٹریک پر کی گئی۔ ہم عدالت کے فیصلے سے مطمئن ہیں اور آج سپریم کورٹ میں اپیل بھی دائر کیا ہے تاکہ اگر جموں و کشمیر انتظامیہ عدالت عظمیٰ کا رخ کرے تو ہمیں قبل از وقت اطلاع ہو جائے۔'
معاملے کی تفصیلات فراہم کراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'گزشتہ ماہ جب آر ٹی او کشمیر نے سرکلر جاری کیا تھا تو اس کے فوراً بعد ہی پولیس نے گاڑیاں ضبط کرنی شروع کر دیں۔ ایک روز ہم نے دیکھا کہ ایک بیمار شخص کی گاڑی ضبط کی گئی جس کے بعد اُن کو پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنا پڑا۔ یہ دیکھ کر ہم نے ارادہ کرلیا تھا کہ عدالت کا رخ کرنا ہے اور رواں ماہ کی 3 تاریخ کو عدالت میں عرضِی دائر کی گئی'۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ 'عدالت میں سماعت کے دوران آر ٹی او کشمیر اور کمشنر سیکریٹری ٹرانسپورٹ کو طلب بھی کیا گیا تھا۔ تاہم عدالت اُن کے جواب سے مطمئن نہیں ہے۔ جواب دہندگان کی جانب سے ایڈوکیٹ جنرل ڈی سی رینا نے عدالت کو یقین دلایا کہ کوئی بھی گاڑی ضبط نہیں کی جائے گی جب تک معاملے پر فیصلہ نہ آجائے۔ عدالت نے معاملے پر آخری سماعت رواں ماہ کی 22 تاریخ کو کر کے اپنا فیصلہ محفوظ کیا۔'
انہون نے مزید کہا کہ 'ہمیں پورا یقین تھا کہ فیصلہ ہمارے حق میں آئے گا، لیکن اگر فیصلہ کچھ اور ہوتا تو ہم عدالت عظمیٰ کا رخ کرنے کے لیے بھی تیار تھے۔ آج ہی ہم نے عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کی ہے تاکہ اگر جموں و کشمیر انتظامیہ وہاں جائے تو ہمیں پتہ چلے۔'